اسلامی تعلیم دو چیزوں کو لیے ہوئے ہے،کچھ چیزیں وہ ہیں جو بندوں سے چاہی جارہی ہیں اور کچھ وہ ہیں جن سے بندوں کوبچنے کی تعلیم ہے،اس میں کچھ کرنے کی چیزیں ہیں اور کچھ بچنے کی چیزیں ہیں، جن چیزوں سے بچنا ہے اُس کے لیے تزکیہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور جوچیزیں پسندیدہ ہیں،اُن سے آراستہ ہونے کو احسان سے تعبیر کیا جاتا ہے؛ چونکہ منع کی ہوئی چیزوں سے بچنے کا اہتمام اس وقت تک نہیں ہوپاتا جب تک کہ مجاہدہ (نفس کی خواہشات کو دبانے) کے ذریعہ سے نفس کو قابو میں نہ کرلیا جائے،اسی لیے تزکیہ کا لفظ نفس سے متعلق کرتے ہوئے تزکیۂ نفس کہا جاتا ہے؛یہی وجہ ہے کہ منع کی ہوئی چیزوں کاارتکاب نفس کے تقاضہ ہی کی وجہ سے ہوتا ہے، نفس کا کام ہی ہے کہ منع کی ہوئی چیزوں کے خلاف جذبات وخیالات پیدا کرتارہتا ہے۔
قرآن کریم میں نفس کے تزکیہ پر کامیابی کی ضمانت دی گئی ہے اورخواہشِ نفس سے بچنے پر جنت کی خوشخبری دی گئی ہے اور نفس کی چاہت پر عمل کرنےکوگمراہی قرار دیا گیا؛
♥چنانچہ ارشاد ربانی ہے:
"قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا"۔
(الشمس:۹)
فلاح اسے ملے گی جو اپنے نفس کو پاکیزہ بنائے۔
♥دوسری جگہ ارشاد ہے:
"وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰیoفَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَأْوٰیo"۔
(النازعات:۴۱،۴۰)
بہرحال جو اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے کا خوف رکھےاوراپنے نفس کوبُری خواہشات سے روکے،تو جنت ہی اس کا ٹھکانا ہوگی۔
♥تیسری جگہ ارشاد ہے:
"وَلَاتَتَّبِعِ الْھَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبَیْلِ اللہِ"۔
(ص:۲۶)
اور نفسانی خواہش کے پیچھے نہ چلو،ورنہ وہ تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکادے گی۔
♥ایک اور جگہ ارشاد ہے:
" وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوَاہُ بِغَیْرِ ھُدًی مِّنَ اللہِ"۔
(القصص:۵۰)
اور اس سے زیادہ گمراہ کون ہوگاجو اللہ کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت کے بغیربس اپنی خواہش کے پیچھے چلے۔
♥ایک اور جگہ ارشاد ہے:
" اَفَرَأَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰھَہٗ ہَوَاہُ"۔
(الجاثیہ:۲۳)
کیاتم نے اسے بھی دیکھا ہے جس نے اپنا خدا اپنی نفسانی خواہش کو بنالیا ہے۔
لفظ"ہَوٰیٰ"کی تشریح مفسرین نے"مَیْلَانُ النَّفْسِ اِلَی الشَّہْواتِ"(نفس کا خواہشات کی طرف رغبت کرنے) سے کی ہے، اس لیے وہ طریق اور وہ علم جس کے ذریعہ نفس کو منع کی ہوئی چیزوں کی رغبت سے روکنے میں مدد ملے وہ علم"علمِ تزکیہ"کہلاتا ہے۔
جتنی بُری صفات وعادات ہیں وہ سب کی سب اِسی خواہشِ نفسانی کا نتیجہ ہوتی ہیں،اِسی لیے نفس کا پاک ہوجانا اُن تمام بُری عادتوں سے آدمی کے محفوظ رہنے کا ذریعہ ہے،اب چونکہ خواہشات دل کےاندر پائی جاتی ہیں اس لیے اس کوتزکیۂ باطن بھی کہتے ہیں اورجوعلم ان کاموں سے بچنے کے طریق سے واقفیت کا سبب بنے، اسے علم باطن بھی کہتے ہیں، اس کے برخلاف اسلام میں جو چیزیں پسندیدہ ہیں وہ اچھی صفات وعادتیں کہلاتی ہیں اوران کوحدیث کی اصطلاح میں احسان سے تعبیر کیا گیا ہےجس کو علم الاخلاق بھی کہاجاتا ہے؛ گویا کہ قرآنِ پاک کے الفاظ میں تزکیہ اور احادیثِ پاک میں احسان کہتے ہیں اور ان دونوں کے مجموعہ کومعروف اصطلاح میں"تصوف وعلم تصوف"کہا جاتا ہے۔
گویا تصوف ایک اصطلاحی لفظ ہوا اس کو سمجھنے کے لیے یہ بات بھی ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ تصوف ایک مقصدِشرعی کوحاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
یعنی جس طرح صحابہ حضور پُر نورﷺ کی صحبت میں رہ کر اپنی ذات سے بُرے اخلاق وبُری صفات یعنی کفر وشرک،غرور وتکبر،عجب وخود پسندی،ظلم وزیادتی،ریاکاری وبدکاری،عداوت ودشمنی،حسد وغضب،حرص وطمع،غیبت ودروغ گوئی،خیانت وبدعہدی،،بہتان تراشی وشراب نوشی وغیرہ کو نکال پھیک کر اچھے اخلاق و اچھی صفات،توحید ووحدانیت،عاجزی وانکساری،زہد وتقوی،اخلاص وللہیت،عدل وانصاف،شرم وحیا،الفت ومحبت،ایثار ومروت،رحم دلی وشفقت،قناعت واستغناء،صداقت وحق گوئی،امانت ودیانت،حسن ظن واحسان،صبر وشکروغیرہ کو پیدا فرمالیا تھا جس کے نتیجے میں وہ اعتقادی واخلاقی گندگیوں سے پاک صاف ،مزکی ومصفی ہوکر اخلاق کی ان بلندیوں پر پہنچ چکےکہ جس کی نظیر ومثال سابقہ امتیوں اور قیامت تک آنے والی انسانیت میں ملنا مشکل ہےاور وہ ان اعتقادی واخلاقی صفائی وستھرائی پرتہہ دل سے خوش بھی تھے،جس کی وجہ سے اللہ تعالی نےقرآن مجید میں "رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ"کا مژدہ بھی سنادیا، انہی صفات سے اپنے آپ کو متصف کرنے کے لیے اہل تزکیہ واحسان اپنے اکابرین کے تجربات کی روشنی میں کچھ تدابیر ونسخے ایسے بتلارے ہیں کے اگر کوئی اُن کو اختیار کرلے تو وہ بھی انہی صفات سے متصف ہوکر کمال ایمان حاصل کرسکتا ہے۔
اہل تزکیہ واحسان کا مقصوداُن تدابیر ونسخوں سے انہی میں الجھائے رکھنا نہیں؛ بلکہ صرف ان ایمانی صفات کو لوگوں میں اس درجہ راسخ ومنہا کرنا ہے کہ اگر کوئی باطل یا غیر شرعی چیزاُن سے ٹکرا جائے تو وہ اس سے مرعوب ومتاثر نہ ہوں ؛ بلکہ باطل کا مقابلہ کرسکیں،اور خود اس پر موثر وغالب آجائیں،جب اُن کے اندر کمال ایمان کے ساتھ غالب اور موثر ہونے کی شان پیدا ہوجاتی ہےتو وہ ایمانی صحت کے کمال کو پہنچ جاتے ہیں تو وہ تمام تدابیر ونسخے ختم کردئےجاتے ہیں،وہ اب اس قابل ہوجاتے ہیں کہ زندگی کے کسی بھی مرحلے میں جو غور وفکرکرتے ہیں یا جو کچھ عملی اقدامات کرتے ہیں تو وہ الہامات الٰہیہ وفراست ایمانیہ سے کرتے ہیں،اُن کا ہر قول وفعل پوری بیدار مغزی واستحضارخدا وندی کے ساتھ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اُن کی چھوٹی سے چھوٹی بات ،معمولی سے معمولی حرکت پر قبولیت کے واٰثاروانوار برستے ہیں کہ جن کو دیکھ کر شقی سےشقی دل بھی نرم پڑجاتے ہیں،اور غافل ومردہ دل بھی بیداروزندہ ہوجاتے ہیں،پھر وہ شقی،غافل مردہ دل بھی اپنے آپ میں وہ شکستگی وہ درد وکرب اور آخرت کے لیے جینے مرنے کا احساس وہ عکس پاتے ہیں،جو کے صحابہ نے حضور کی صحبت میں رہ کرحاصل کیا تھا، ان صفات کو اپنے اندر پیدا کر ناکتنا ضروری ہے،اس کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن پاک میں آپ کے فرائض ِ منصبی میں سے اس کو تیسرے نمبر پر بیان کیاگیاہے، ارشاد ربانی ہے:
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ۔
(الجمعہ:۲)
وہی ہے جس نے امی لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول کو بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتوں کی تلاوت کریں،اور ان کو پاکیزہ بنائیں،اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیں،جبکہ اس سہ پہلے وہ گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔
یعنی آپﷺ کے فرائض منصبی میں سے ہے کہ آپ مسلمانوں کوکتاب وحکمت کی باتیں بتائیں اور ان کو غلط اعتقادات بُرے کردار سے بچا کر صحیح اعتقادات واچھے کردار پر لائیں، توآپﷺ نے صحابہ کو کتاب وحکمت کی تعلیم دے کر ان کی ایسی ذہن سازی وکردار سازی کی کہ وہ اپنے تمام شعبۂ حیات سے زمانۂ جاہلیت کے تمام اعتقادات ورسوماتِ جاہلیہ کو نکال پھینک کر اسلامی اعتقادات وکردار کو اپنی زندگیوںمیں ایسے بسالیا کہ جس کی مثال رہتی دنیا تک ملنی مشکل ہی نہیں ناممکن ہے،انہی اعتقادات وکردار کو اپنے اندر پیدا کرنے کے لیے اہل تزکیہ واحسان جو تدابیر بتلاتے ہیں وہ اس کثرت سے ہوگئے کہ وہ بھی ایک مستقل اسلامی علم وفن بن گئے دیگر علوم وفنون اسلامیہ کی طرح؛لیکن دور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں تمام علومِ اسلامیہ وفنونِ شرعیہ کا سرچشمہ ومنبع جناب نبی اکرمﷺ کی ذات مبارکہ تھی، آپﷺ سے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم اپنی سمجھ وصلاحیت کے مطابق کمال علم وعمل سے فیضیاب ہوتے رہے اور اپنے طبعی مزاج کی مناسبت سے مختلف علوم نبویہ میں امتیازات پیداکئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام شاگردوں اورفیض پانے والوں کا ایک ہی لقب تھا وہ ہے"صحابہ"اوریہ( شرفِ صحبتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم) ایک ایسا عظیم الشان لقب وامتیاز ہے کہ بعد کے تمام وزنی کمالات کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔
جس کو زندگی میں ایک مرتبہ یہ شرفِ صحبت حاصل ہوگیا تو گویا وہ انبیاء علیہم السلام کے بعد تمام اقوامِ عالم کے امتیوں سے مقام ومرتبہ میں آگے نکل گیا؛ اگرچہ حضورﷺ کے زمانہ میں علوم اسلامیہ کی تقسیم اس طرح نہیں ہوئی تھی جس طرح اس زمانہ میں ہے؛ گوبعضِ صحابہ اپنے علمی وعملی مزاج وخصوصیات کے اعتبار سے خود حضور پاکﷺ کے زمانہ میں مشہور ومعروف تھے اورآپؐ کے اس دنیا سے پردہ فرماجانے کے بعد اور زیادہ مشہور ومعروف ہوگئے ؛
بلکہ خود حضورﷺ نے اپنے زبانِ حال وقال سے فرمایا:
کہ اگر کسی کو دل کی سچائی ومقام صدیقیت دیکھناوسیکھنا ہو تو وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دیکھیں-
اور اگر کسی کو آثار نبوت ومزاج شریعت دیکھنا اور اُسےحاصل کرنا ہو تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھیں اور سیکھیں؛
اگر کسی کو حیاءکا علمبردار بننا ہو تو وہ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی سیرت کا مطالعہ کریں-
اوراگر کسی کوباب قضاء میں درک حاصل کرنا ہو تو وہ حضرت علی مرتضیؓ سے سیکھیں-
اِسی طرح اگر کسی کو امانت داری وراز داری سیکھنا ہو تو وہ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ اورحضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے سیکھیں
اور
اگر کسی کوزہد وتقویٰ، صبروتحمل سیکھنا ہو تو وہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ سے سیکھیں
اور
اسی طرح جماعتِ صحابہ میں بھی یہ بات مشہورو معروف تھی کہ بعضے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بعض علوم اسلامیہ میں خاص مہارت رکھتے ہیں؛
جیسے کسی کو کوئی مسئلہ پوچھنا ہو تو صحابہؓ کہتےکہ جاؤ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ سے پوچھو
اور
اگر کسی کو حدیث معلوم کرنی ہو تو اُس کو صحابہ اور تابعین حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ اورحضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیج دیتے تھے
اور
اگر کسی کو قرآن وقرأت سیکھنی ہو تو اُس کو حضرت ابی ابن کعبؓ وزید ابن ثابتؓ کے پاس بھیج د یتے تھے کہ جاؤ اُن کے پاس اِس کا خصوصی علم ہے ؛
غرض یہ کہ جماعتِ صحابہؓ میں مختلف علمی وعملی مزاج وخصوصیات کے حاملین تھے، اللہ تعالی نے کسی کو کچھ اورکسی کو کچھ دےکر دیگر صحابہ میں ممتاز فرمادیا تھا؛ چنانچہ خود بعض صحابہ اوربعد کے لوگ یعنی تابعین انہی علوم میں خصوصیات کی وجہ سے اُن سے فیض حاصل کرنے کے لیے جمع ہوتے اور اُن کی مجلسوں میں شریک ہوتے اور اپنےحوصلہ کے مطابق فیضیاب ہوتے،
جوں جوں اسلام بڑھتا اور پھیلتا گیا اُسی طرح علومِ نبویہ کے پروانوں میں بھی اضافہ ہوتا گیا ، اِسی طرح علومِ اسلامیہ میں بھی خواص اورماہرین فن پیدا ہونے لگے ؛
چنانچہ علمِ کلام، علمِ تفسیر،علمِ حدیث، علمِ فقہ،علم تزکیہ وحسان ،علمِ ا نساب؛پھر علمِ اسماءالرجال، علمِ اصول وغیرہ اورمختلف علوم الگ الگ عنوانات سے ظاہر ہونے لگے ،ظاہر ہے کہ یہ تمام علوم سادہ اور ابتدائی شکل میں عہدِ نبویﷺ میں موجود تھے، جوں جوں اُن کی تفصیلات مرتب ہوتی گئیں تو اُن کی ترتیب بھی ہوتی گئی اور اُن کے الگ الگ نام متعین ہونے لگے، اِن علوم کے لحاظ سے اُن کے ماہرین کے القاب بھی معروف ہونے لگے کسی کومتکلم،کسی کو مُفسِّر کسی کو مُحَدِّثْ ، کسی کو فقیہ ومجتہداور کسی کو صوفی کہا جانے لگا ؛ گویا کہ آج جتنے علومِ دینیہ اسلامیہ ہیں وہ سب کے سب حضور انورﷺ کے زمانہ میں سادہ وعام شکل وصورت میں موجود تھے ؛لیکن اب چونکہ ان کی اچھی خاصی تفصیلات آچکی ہیں اِس لیے آج ہر ایک علم وفن ترتیب وتفصیل کے لحاظ سے مرتب ومستقل نظر آتا ہے۔
بلکہ خود حضورﷺ نے اپنے زبانِ حال وقال سے فرمایا:
کہ اگر کسی کو دل کی سچائی ومقام صدیقیت دیکھناوسیکھنا ہو تو وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دیکھیں-
اور اگر کسی کو آثار نبوت ومزاج شریعت دیکھنا اور اُسےحاصل کرنا ہو تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھیں اور سیکھیں؛
اگر کسی کو حیاءکا علمبردار بننا ہو تو وہ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی سیرت کا مطالعہ کریں-
اوراگر کسی کوباب قضاء میں درک حاصل کرنا ہو تو وہ حضرت علی مرتضیؓ سے سیکھیں-
اِسی طرح اگر کسی کو امانت داری وراز داری سیکھنا ہو تو وہ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ اورحضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے سیکھیں
اور
اگر کسی کوزہد وتقویٰ، صبروتحمل سیکھنا ہو تو وہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ سے سیکھیں
اور
اسی طرح جماعتِ صحابہ میں بھی یہ بات مشہورو معروف تھی کہ بعضے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بعض علوم اسلامیہ میں خاص مہارت رکھتے ہیں؛
جیسے کسی کو کوئی مسئلہ پوچھنا ہو تو صحابہؓ کہتےکہ جاؤ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ سے پوچھو
اور
اگر کسی کو حدیث معلوم کرنی ہو تو اُس کو صحابہ اور تابعین حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ اورحضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیج دیتے تھے
اور
اگر کسی کو قرآن وقرأت سیکھنی ہو تو اُس کو حضرت ابی ابن کعبؓ وزید ابن ثابتؓ کے پاس بھیج د یتے تھے کہ جاؤ اُن کے پاس اِس کا خصوصی علم ہے ؛
غرض یہ کہ جماعتِ صحابہؓ میں مختلف علمی وعملی مزاج وخصوصیات کے حاملین تھے، اللہ تعالی نے کسی کو کچھ اورکسی کو کچھ دےکر دیگر صحابہ میں ممتاز فرمادیا تھا؛ چنانچہ خود بعض صحابہ اوربعد کے لوگ یعنی تابعین انہی علوم میں خصوصیات کی وجہ سے اُن سے فیض حاصل کرنے کے لیے جمع ہوتے اور اُن کی مجلسوں میں شریک ہوتے اور اپنےحوصلہ کے مطابق فیضیاب ہوتے،
جوں جوں اسلام بڑھتا اور پھیلتا گیا اُسی طرح علومِ نبویہ کے پروانوں میں بھی اضافہ ہوتا گیا ، اِسی طرح علومِ اسلامیہ میں بھی خواص اورماہرین فن پیدا ہونے لگے ؛
چنانچہ علمِ کلام، علمِ تفسیر،علمِ حدیث، علمِ فقہ،علم تزکیہ وحسان ،علمِ ا نساب؛پھر علمِ اسماءالرجال، علمِ اصول وغیرہ اورمختلف علوم الگ الگ عنوانات سے ظاہر ہونے لگے ،ظاہر ہے کہ یہ تمام علوم سادہ اور ابتدائی شکل میں عہدِ نبویﷺ میں موجود تھے، جوں جوں اُن کی تفصیلات مرتب ہوتی گئیں تو اُن کی ترتیب بھی ہوتی گئی اور اُن کے الگ الگ نام متعین ہونے لگے، اِن علوم کے لحاظ سے اُن کے ماہرین کے القاب بھی معروف ہونے لگے کسی کومتکلم،کسی کو مُفسِّر کسی کو مُحَدِّثْ ، کسی کو فقیہ ومجتہداور کسی کو صوفی کہا جانے لگا ؛ گویا کہ آج جتنے علومِ دینیہ اسلامیہ ہیں وہ سب کے سب حضور انورﷺ کے زمانہ میں سادہ وعام شکل وصورت میں موجود تھے ؛لیکن اب چونکہ ان کی اچھی خاصی تفصیلات آچکی ہیں اِس لیے آج ہر ایک علم وفن ترتیب وتفصیل کے لحاظ سے مرتب ومستقل نظر آتا ہے۔
★=====★
No comments:
Post a Comment
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔
لوگوں سے اپنے لۓ کثرت سے احپھی دعائیں کروایا کرو۔ بندہ نہیں جانتا کہ کس کی دعا اس کے حق میں قبول کی جاۓ۔ یا کس کی دعا کی وجہ سے اس پر رحم کیا جاۓ۔
کنزالعمال، (3188)
●موطا امام مالک●
نوٹ: اگر آپ کے پاس اس سلسلہ کا مستند مواد یا کتاب pdf فائل کی شکل میں موجود ہوں تو ہم کوبھیج کرقرآن کریم کی آیت:
(تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى )
(مومنوں کی صفات میں سے ایک صفت یہ ہے کہ وہ) بھلائی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں کا مصداق بنیں،اگر انتظامیہ مناسب خیال کرے تو ان شاءاللہ تعالی اس کو سائٹ پر ڈالا جائےگا۔
★=====★
♥کآپ کی دعاؤں کا طالب♥
⊙ جزاكم الله کل خير واحسن جزاء فی الدنيا والاخرة⊙