صحبت کی تاثیر کا جہاں تک تعلق ہے اس پر ہرزمانہ کے عقلاء اپنی سمجھ بوجھ اوراختلاف آراء کے باوجود اس بات پر سب ہی متفق ہیں کہ انسانی طبیعت کے بناؤ وبگاڑ میں جس قدر صحبت و معیت کا دخل ہے اتنا کسی اورچیز کا نہیں۔
صحبت کی تاثیر پر عقل ونقل دونوں متفق ہیں کہ اس کا ضرور اثر پڑتا ہے اوراللہ تعالی کا دستور بھی یہی ہے کہ جس کسی کو کوئی کمال دیا گیا خواہ وہ دنیاوی علوم وفنون کی شکل میں ہو یا اخروی،وہ کاملین کی صحبت میں رکھ کر ہی دیا گیا، یہی وجہ ہے کہ ایک ڈاکٹر کو برسہا برس کی تعلیم کے بعد بھی ڈاکٹریٹ کی سند و ڈگری اس وقت تک نہیں دی جاتی ہے ،جب تک کہ وہ تجربہ کار ڈاکٹرز کی زیر نگرانی وزیر سرپرستی عملاً مریضوں کی صحیح تشخیص اورصحیح دواؤں کی تجویز کے مرحلہ سے نہ گذر جائے اور جب تک وہ مطمئن نہ ہو جائیں، اس وقت تک مکمل تعلیم ہونے کے باوجود اس کو ڈاکٹر کی سند نہیں دی جاتی اوراسی طرح محض انجینیرنگ ووکالت کی تعلیم سے متاثر ہو کر لوگ اپنا کوئی تعمیری کام یا کوئی مقدمہ اس کے حوالہ نہیں کرتے تاوقتیکہ وہ کسی ماہر انجینیر یا کسی تجربہ کار ایڈوکیٹ کے ماتحت کام کرکے تجربہ ومہارت پیدا نہ کرلے،تو جس طرح دنیاوی علوم وفنون میں بغیر ماہرین علم و فن کے عادۃ کمال حاصل نہیں ہوتا، اسی طرح اخروی علوم وفنون میں بھی کمال حاصل نہیں ہوتا جب تک کہ کسی ماہر علم و فن کی شاگردی ومصاحبت میں اچھا خاصہ وقت نہ گذاردے۔
لیکن آج کا مسلمان مذہبی اعتبار سے کسی مذہبی پیشوا کے ما تحت رہ کر زندگی گزارنا نہیں چاہتا،وہ آزاد اور من چاہی زندی گزارنا چاہتا ہے ؛بلکہ ہرشخص اپنے آپ کو قاعدہ وقانون سے بالاتر اور مستثنی قراردیتا ہے اور کسی قاعدہ وقانون کی جکڑ وگرفت میں رہنا نہیں چاہتا اورنہ اسکو برداشت کرنے کا اپنے آپ میں حوصلہ پاتا ہے اِس مہلک مرض میں ہرتنظیم، جماعت اور سوسائٹی کےاہم عہدوں ومنصبوں پر جوافراد فائز ہیں وہ سب کے سب (الا ماشاء اللہ) اِس مرض میں مبتلا ہیں اورجس کسی تنظیم وجماعت کے جو اصول وضوابط بنائےجاتے ہیں اُن کو توڑنے والوں میں اولین بلکہ سرفہرست انہی کا نام شمار ہوتا ہے (الاماشاء اللہ) چند مخلصین ہی کی وجہ سے ہرجماعت وتنظیم چلتی ہے۔
الغرض یہ کہ ہر شخص اپنے علاوہ دوسرے کو سدھارنے اوراسکو صحیح ودرست کرنے کی کوشش میں لگاہوا ہے؛ اگر یہی کوششیں اورفکریں ہرفرد اپنے سلسلہ میں کرتا رہے تو دنیا جنت نشاں بن جائے (ائے کاش کہ ایسا ہوجائے، آمین) آج واقعی اس پہلوسے سنجیدگی سے سونچنے اورکچھ عملی اقدام کرنے کی ضرورت ہے ؛بلکہ یہ وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے۔
اگرواقعی حقیقی دین چاہتے ہو اور پھر سے اسلام کی باغ وبہار دیکھنا چاہتے ہو تو پھرسے وہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ وتاریخ کولوٹانا ہوگا کہ جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اور اپنے آپ کو سو فیصد حضورؐ کے حوالہ کرکے اورآپ ﷺ کی صحبت میں رہ کر دین وایمان کی حقیقتوں کو دیکھا اورسیکھا تھا اُسی طرح آج ہم کو بھی اِن ہی وارثینِ انبیاء ،علمائے ربانیین،صوفیائے حقہ اور محافظینِ دین وایمان کی عقیدت ومحبت کو دل میں رکھ کر، ان کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر ،اُن کی صحبت میں رہ کر وہ تمام وراثت کو دیکھنا ،سیکھنااور لینا ہوگا جس کو حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ میں منتقل فرمایا تھاجو آج ہم تک نسل در نسل ہوتے ہوئے عمل کرتے کرتے یا سن سن کریا بول بول کر چلی آرہی ہے،اس کو اور خاص طور پر وہ علوم ومعارف کہ جن کا تعلق علوم ظاہرہ کے ساتھ ساتھ علوم باطنہ سے بھی ہوں یعنی جو،اعتقاد ویقین،عزیمت وکمال ایمان ،صفات وکیفیات اورمراتب ِقُرب سے تعلق رکھتے ہوں ان کو سیکھنااور ان کے بتلائے ہوئے طریقوں پر عمل کرنا ہوگا ۔
اگر مسلمان پھر سے اپنی تاریخ دھرانا چاہتا ہے تو دنیا کے عیش وآرام اور یہاں کی عزت وجاہ،مال ودولت کی حرص کو چھوڑ کر سو فیصد اللہ کے حکموں کے تابعدار اور رسول اللہﷺ کی اتباع کو اپنا مقصود زندگی بناکر سب سے پہلے اپنے اندرون کودرست کرلیں تو دنیا پھرسے کہہ اٹھے گی کہ جس طرح ملک فارس یعنی ایرانیوں نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت کوسمندروں کی موجوں اور لہروں پر ایسے چلتے دیکھا جیسے کوئی خشکی وریت پر چلتا ہو یہ منظر دیکھ کرانہوں نے کہا تھاکہ:
"دیواں آمدند، دیواں آمدند"
(البدایہ،۶/۱۷۲)
"یعنی بھگوان آرہے ہیں، بھگوان آرہے ہیں اوراسی طرح اہلِ ہند نے کہا تھا کہ:
"مسلمان خدائی روپ میں آئے ہیں"۔
آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم کو اسی طرح صحیح معنی میں دین و ایمان کی سمجھ بوجھ عطاء فرمائے کہ جس طرح صحابہؓ کو عطاء فرمائی تھی ۔
اوران ربانی صوفیائے حقہ کو ہم اپنے حق میں ایک نعمت عظمیٰ ونعمت ٖغیر مترقبہ سمجھ کر ان سے خوب استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور علم تصوف کی حقیقتوں کو ہمارے اوپر کھول دے تاکہ اِس کے ذریعہ سے کمال قُرب ورفع درجات حاصل کرسکیں آمین ثم آمین۔
★=====★
No comments:
Post a Comment
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔
لوگوں سے اپنے لۓ کثرت سے احپھی دعائیں کروایا کرو۔ بندہ نہیں جانتا کہ کس کی دعا اس کے حق میں قبول کی جاۓ۔ یا کس کی دعا کی وجہ سے اس پر رحم کیا جاۓ۔
کنزالعمال، (3188)
●موطا امام مالک●
نوٹ: اگر آپ کے پاس اس سلسلہ کا مستند مواد یا کتاب pdf فائل کی شکل میں موجود ہوں تو ہم کوبھیج کرقرآن کریم کی آیت:
(تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى )
(مومنوں کی صفات میں سے ایک صفت یہ ہے کہ وہ) بھلائی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں کا مصداق بنیں،اگر انتظامیہ مناسب خیال کرے تو ان شاءاللہ تعالی اس کو سائٹ پر ڈالا جائےگا۔
★=====★
♥کآپ کی دعاؤں کا طالب♥
⊙ جزاكم الله کل خير واحسن جزاء فی الدنيا والاخرة⊙