ہمارا یہ دور جس کےشب وروز میں نسلِ انسانی اپنی زندگی کاسفر طے کررہی ہے،اس کی ضرورت کاہرسامان موجود ہے اور اس میں ہردن اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے،تعلیم حاصل کرنے کے لئے ہر طرف مختلف ذرائع استعمال کئے جارہے ہیں،تحصیل علم کے ایسے ایسے حیرت انگیز اسباب وجود میں آرہے ہیں کہ پچھلے زمانوں میں اس کا تصور بھی نہیں ہوسکتا تھا،ایسی مشینیں وجود میں آچکی ہیں کہ تھوڑی سی مقدار کےحجم میں ہزاروں کتابیں سماجاتی ہیں ،دینی وعصری مدرسے،کالجس،یونیورسٹیز،مردوں اور عورتوں کی الگ الگ تعلیم گاہیں ،دینی جلسے ،انجمنیں،مختلف جماعتیں اور تنظیمیں علم کی اشاعت میں سرگرم عمل ہیں جس طرف دیکھیں علم کا نعرہ ہے،اس صورت حال کاتقاضا تویہ تھا کہ آبادیوں کی آبادیاں علم کی روشنی سے جگمگا اٹھتیں ،انسانوں کی انسانیت معراج کمال کو پہنچ جاتی، علم وہنر کے اثرسےاخلاقی خوبیاں پیدا ہوتیں،ان باتوں پر غور کرنے والے اس موضوع پر کانفرنسیں اور سمینار منعقد کررہے ہیں ، کتابیں لکھی جارہی ہیں ؛لیکن کوئی عملی نتیجہ سامنے نہیں آرہا ہے،دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے ہاتھوں سے کیاچیز گم ہوگئی ہے جس کے نہ ہونے سے علم کی رونق جاتی رہی اس نے اپنی تاثیر کھودی، دلوں میں تازگی باقی نہ رہی، اعمال حسنہ کی طرف رجحان کم ہوگیا ،اسباب علم کی فراوانی کے باوجود جہالت بڑھتی جارہی ہےدیگر اقوام کا حال تواپنی جگہ ہے خود مسلمانوں میں دین دار سمجھے جانے والوں کا حال بھی ایمانی روح سے خالی ہے۔
آئیے !اسلامی تعلیمات میں اس کا حل موجود ہے،نبی رحمت حضرت محمدﷺ نے ارشاد فرمایا:
أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ۔
(بخاری،بَاب فَضْلِ مَنْ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ،حدیث نمبر:۵۰)
خوب سن لو سمجھ لو کہ جسم کےاندر ایک پارۂ گوشت ہے جب وہ درست ہوتا ہے تو سارا جسم درست ہوتا ہے اور وہ بگڑتا ہے تو سارا جسم بگڑجاتا ہے خوب سن لو اور سمجھ لو کہ وہ دل ہے۔
انسان میں انسانیت پیدا کرنے کے لئے دل کی اصلاح ضروری ہے،جس آدمی کے دل کی اصلاح نہ ہووہ زیادہ سے زیادہ ملکی قوانین پر عمل کرے گا جہاں مواخذہ کا اندیشہ ہو اور جہاں جرم کرنے کے لئے راستہ صاف دکھائی دے وہاں ملکی قوانین کو بھی بالائے طاق رکھ دےگا،دل کے سدھار کی طرف اشارہ کرتےہوئے نبیٔ کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلَا فِي غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَهَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْءِ عَلَى الْمَالِ وَالشَّرَفِ لِدِينِهِ۔
(ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي أَخْذِ الْمَالِ بِحَقِّهِ،حدیث نمبر:۲۲۹۸)
دوبھوکے بھیڑئے جوبکریوں کےریوڑ میں چھوڑدئےگئے ہوں ان بکریوں کو اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتے جتنا آدمی کےدین کو مال کی اور عزت وجاہ کی ہوس نقصان پہنچاتی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دل کی اصلاح کیسے کی جاتی ہے ،اوراس بات کی علامت کیا ہے جس سے یہ سمجھا جاسکے کہ دل کی اصلاح ہورہی ہے؟اس کو سمجھنے کے لئے اس حدیث پر غور فرمائیے:
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی :
(فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ)
(الانعام:۱۲۵)
(اللہ تعالی جس کو ہدایت دینا چاہتے ہیں اس کےسینے کو اسلام کے لئے کھول دیتے ہیں )
اس پرآپﷺ نےفرمایا : جب یہ نور سینہ میں داخل ہوتا ہے تو سینہ اس کی وجہ سے کھل جاتا ہے آپﷺ سے دریافت کیاگیا کہ کیا اس کی کوئی علامت ہے جس سے اس کی شناخت ہوسکے ؟ آپﷺ نے فرمایا ہاں دنیا جو دھوکے کی جگہ ہے اس سے طبیعت کا ہٹ جانا اور آخرت جو ہمیشہ قیام کی جگہ ہے طبیعت کا اس کی طرف رجوع ہوجانا اور موت کےآنے سے پہلے اس کی تیاری میں لگ جانا۔
خلاصہ یہ کہ جس کا دل دنیا سے ہٹ جائے اور آخرت کی طرف متوجہ ہوجائے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھولدیاگیا،دل کو بنانے اور سدھارنے کا وہی طریقہ کامیاب ہے جو حضور اکرمﷺ سے جاری ہوا ،آپﷺ کی صحبت وتربیت میں صحابہ کرام نے اپنے دلوں کو بنایا دنیا ہی میں ان کو جنت کی خوشخبری دی گئی، صحابہ سے تابعین پھر ان سے تبع تابعین نے اپنے دلوں کی اصلاح کی،پھر آگے اللہ کے نیک بندے اولیاءاللہ لوگوں کے قلوب کی اصلاح کاکام کرتے رہے ،یہ اہل اللہ جہاں نفس کےتزکیہ کی ضرورت محسوس کرتے وہاں اس پر توجہ دیتے جہاں جہاد بالسیف کی ضرورت ہوتی اس وقت وہاں اس کا حکم دیتے، تاریخ میں اس کی ان گنت مثالیں موجود ہیں۔
انسان جب بیمار ہوتا ہے تو علاج کے لئے ڈاکٹر سے رجوع ہوتا ہے اور اس کے احکامات پر عمل کرتا ہے ،جب گھر بنانے کی ضرورت ہوتی ہے تو کسی انجنیٔر کی رہنمائی حاصل کرتا ہے،عدالت میں کوئی مقدمہ چل رہا ہوتو اس کی یکسوئی کے لئے وکیل کی خدمات حاصل کرتا ہے،ظالموں اور چوروں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے پولیس کی مددلیتا ہے،چوری کرنے والے کا پتہ نہ چلے تو پولیس کی مدد سے اس کا پتہ لگاکر گرفتار کیاجاتا ہے،اسی طرح ہر انسان کے اندر کچھ نہ کچھ ایسی خامیاں ہوتی ہیں جس کا وہ خود پتہ نہیں لگاسکتا،ان خامیوں سے بچنے اور فکر آخرت کو غالب رکھنے کے لئے اہل اللہ کے صحبت ضروری ہے،تاکہ اس کی زندگی اتباع سنت کی عادی ہوجائے اس کی سدھری ہوئی زندگی اس کے اہل خانہ وخاندان کے لئے نمونہ بن جائے،اللہ کی رضا حاصل کرنا اس کے لئے آسان ہوجائے۔
دنیا میں لاکھوں انسان اپنی اپنی زندگی گزار کر رخصت ہورہےہیں ؛لیکن مسلمان جس کو انسانیت کا امام بناکر بھیجاگیا ہے اس کی کچھ ذمہ داریاں ہیں ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے خود کی اصلاح کی شدید ضرورت ہے جس کے بغیر اس کے علم وعمل میں روشنی پیدا نہ ہوگی،اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے اپنی خامیوں کو دور کرنے کے لئے اپنے علم وعمل میں جلا پیدا کرنے کے لئے کسی اللہ والے بزرگ سے وابستگی اختیار کرناضروری ہے۔
لوگ بزرگوں سے اس زمانے میں عام طور پر جو تعلق رکھ رہے ہیں ان کے مقصد میں خلوص کی کمی کی وجہ سے منزل تک نہیں پہنچ پارہے ہیں ،کسی کا مقصد صرف دنیاوی مقدموں میں کامیابی کی دعا کرانا ہوتا ہے، کسی کا مقصد نسبت سے فائدہ اٹھاکر اپنا کاروبار مضبوط کرنا ہوتا ہے،کوئی ایسے نام نہاد صوفیوں سے اپنا تعلق قائم کرکے پریشان ہوجاتا ہے جن کا مقصد صرف دنیا جمع کرنا ہے، ہماری اس سائٹ پر اس عنوان کے تحت اللہ والے صوفیوں کی علامتیں بیان کی گئی ہیں اس کی روشنی میں ایک مسلمان رہبر کامل کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اس کی علامتوں کو پہچان کر اپنے قلب کی اصلاح کرسکتا ہے۔
★=====★
No comments:
Post a Comment
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔
لوگوں سے اپنے لۓ کثرت سے احپھی دعائیں کروایا کرو۔ بندہ نہیں جانتا کہ کس کی دعا اس کے حق میں قبول کی جاۓ۔ یا کس کی دعا کی وجہ سے اس پر رحم کیا جاۓ۔
کنزالعمال، (3188)
●موطا امام مالک●
نوٹ: اگر آپ کے پاس اس سلسلہ کا مستند مواد یا کتاب pdf فائل کی شکل میں موجود ہوں تو ہم کوبھیج کرقرآن کریم کی آیت:
(تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى )
(مومنوں کی صفات میں سے ایک صفت یہ ہے کہ وہ) بھلائی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں کا مصداق بنیں،اگر انتظامیہ مناسب خیال کرے تو ان شاءاللہ تعالی اس کو سائٹ پر ڈالا جائےگا۔
★=====★
♥کآپ کی دعاؤں کا طالب♥
⊙ جزاكم الله کل خير واحسن جزاء فی الدنيا والاخرة⊙