علم تصوف میں عزیمت، کمالِ ایمان، تقویٰ وطہارت،زہدوقناعت کمالِ علم وعمل، اتباعِ سنت،اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ عشق ومحبت ،اخلاقِ حمیدہ کے ساتھ اتصاف واخلاقِ رزیلہ سے اجتناب کی تعلیم دی جاتی ہے، جس میں اللہ رب العزت خالق کائنات مالک دوجہاں کی نافرمانی اورعدول حکمی کی ذرہ برابر گنجائش نہیں ،نافرمانی اور عدول حکمی کا تصور بھی اس راہ میں گناہ شمار کیا جاتاہے، جب اس میں یہ تعلیم دی جاتی ہو اور اُس کے طالبین اس پر اہتمام والتزام کے ساتھ عمل بھی کرتے ہوں تو وہ اللہ کے فضل سے سیدھے جنت میں دخولِ اولی یعنی بغیر حساب کتاب کے سیدھے جنت میں داخلہ کے مستحق گردانیں جائیں گےاور اللہ تعالی سے یہی امید بھی کی جاتی ہےاور دعا بھی کرتے ہیں کہ ان مریدانِ حق کو اپنے فضل وکرم سے سیدھے دخول اولی مستحق قرار دیں۔آمین
جس کو یہ دولت نصیب ہوگی وہ تو حکم الہٰی اور اتباع سنت میں ایسا مست و مگن ہو تا ہے کہ اس کو دیکھ کر حقیقت سے ناواقف لوگ دیوانہ، پاگل اورمجنون کہتے ہیں اگر ان انسانوں کو اُن اہل اللہ کی اندرونی حالت معلوم ہو جائے اوراُن کے سُرور اوراطمینانِ خاطر کا علم ہو جائے تو اس کوحاصل کرنے کے لیے جنگ وجدال سے بھی گریز نہ کریں گے۔
یہی سرور اورکمالِ اطمینانِ خاطر تمام انبیاء علیہم السلام، حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اوراولیاء اللہ کو حاصل تھا جس کی وجہ سے اُن کو دنیا کا کوئی نقصاندہ نقشہ اورکوئی ضرررساں چیز متاثر نہیں کرسکتی تھی؛ بلکہ اُن کے لیے تو وہی ضرررساں چیز، باغ وبہار، جنت کی کیاری اوررضائے الہٰی کا مژدہ بن جاتی جس کی وجہ سے ان کو عین الیقین بھی حاصل ہوجاتا ہے ؛چنانچہ ابراہیم علیہ السلام کو دہکتی ہوئی آگ میں ڈالدیا گیا، عام لوگوں کی نگاہوں میں تو وہ ایک دہکتی ہوئی آگ کا طوفان ہے؛ لیکن ابراہیم علیہ السلام کے حق میں وہی آگ گلِ گلزار، جنت کا باغیچہ ہے؛ کیونکہ وہ اللہ کی حقیقت وعرفان کو پائے ہوئے تھے، اس لیے وہ یقینِ کامل کے ساتھ مطمئن تھے کہ یہ آگ ہم کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتی؛ اسی طرح حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ،حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ اور حضرت صہیب رومیؓ وغیرہ ان حضرات پر ظاہری نگاہوں میں تو مصیبتوں واٰلام کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں بدن زخموں سے چور ہے؛لیکن یہ ظاہری تکلیف اُن کے حق میں تکلیف ہی نہیں تھی؛ بلکہ ہمیشہ ہمیش کی کامیابی،فوزوفلاح،نِعَمِ جنت اوررضائے خداوند عالم کو اپنی اِس دنیاوی زندگی میں دیکھ کر نہایت خوش وخرم ہوکر ببانگِ دُہل کہہ رہے ہیں:
♥"فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ"۔
کعبہ کے پروردگار کی قسم میں توکامیاب ہوگیا۔
یعنی اُن کو اِس زندگی میں کامیابی اوررضائے الہٰی کی سند مل گئی، کیا ہی نصیبے والے تھے(اے کاش کہ ہمیں بھی ان کا عشرِ عشیر نصیب ہوجائے آمین)۔
یہی کیفیت وسرور اِن صوفیائے کرام کو حاصل ہے کیوں کہ اِن کے پاس حقیقی دین وایمان ہے،محض رسمی، موروثی، عطائی نہیں ہے،وہ لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ اُن کے پاس کون آرہا ہے اور اس کا کیا مقام ومرتبہ ہے؛ بلکہ یہ دیکھتے اور سونچتےہیں کہ اُس کے دل کا رُخ کدھر ہے آیا اللہ کی طرف رجوع کئے ہوئے ہے یادنیا کی رنگ رلیوں کی طرف؟ وہ کیسے دل کے ساتھ آرہا ہے؛اس کے دل کی حالت کے مطابق کونسا حکم شرعی سنایاجائے اور اس کو کیا نصیحت کی جائے؛ تاکہ وہ بھی اللہ کا گن گانے لگ جائے اور حب جاہ وحب مال سے منہ موڑکر اللہ کیطرف رجوع کرلے، کیا لارہا ہے یہ نہیں دیکھتے؛ بلکہ یہاں آکر کیا لے جارہا ہے یہ دیکھتے ہیں،اُن کا مزاج اور ان کی طبیعت اللہ کے حکموں کے آگے اور رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایسی ہوجاتی ہے جیسے غسال کے آگے مردہ،یعنی جس طرح غسال مردہ کو الٹ پلٹ کرتا ہے اور اس پر مردہ کوئی اعتراض نہیں کرتا،جیسا چاہے ویسا ہوجاتا ہے اسی طرح صوفی کا مزاج اور اس کی طبیعت بھی اللہ کے حکم کے آگےاور رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے سامنے ہوجاتی ہے۔
جوحلال،طیب اورپاکیزہ چیز مل گئی کھالیتے ہیں کسی قسم کا کوئی مطالبہ وخواہشِ بطن نہیں ؛بلکہ اِس احساس کے ساتھ کھاتے ہیں کہ ہم اِس کے بھی ہر گز مستحق نہیں تھے، محض اللہ نے ہم پر رحم وکرم کیاکہ اس کو ہم تک پہنچا دیا اس پر شکر بھی ادا کرتے ہیں اور اگر کسی وقت کچھ نہ ملے تو اس پر صبر کرتے ہیں اِس اعتقاد ویقین کے ساتھ کہ ہم اِسی کے مستحق ہیں،ہم کیا پہن اوڑھ رہے ہیں اُس کی مالیت کیا ہے؟ اس کی طرف توجہ نہیں دیتے؛ بلکہ اُن کی فکرتو صرف حکمِ خداوندی سترپوشی کی طرف ہوتی ہے تو بس جس جائز کپڑے سے ہوکرلیتے ہیں اُس میں نیا پُرانا،عمدہ گھٹیا،نرم ملائم اورقیمتی کی طرف التفات نہیں کرتے،یہ تمام چیزیں اُن میں رسمی،اِسمی اورنمائشی نہیں ہوتی ہیں؛ بلکہ ان کا تو ہر قول وفعل پورے اِستحضار خداوندی کے ساتھ صادر ہوتا ہے، تب ہی تو اُن کی معمولی سی بات اورچھوٹی سی حرکت میں بھی ایسی تاثیروایسی کیفیت طاری ہوتی ہے جو بے روح وجان ہزاروں لچھے دار تقاریر اورلاکھ جتن وکوشش کے بھی نہیں آپاتی۔
اِس طرح وہ لوگ اپنی زندگی کے تمام شعبوں سے مادیت کو نکال پھینک کر اپنے اندرروحانیت پیدا کرلیے ہوں اور کسی سے کچھ طمع ولالچ کی ذرہ برابر بھی امید نہ رکھتے ہوں اور اُس طرف توجہ کرنا جرمِ عظیم سمجھتے ہوں اور اُن کی نظر میں شاہ و گدا،امیروغریب، مرغ مسلم وروکھی سوکھی ،ریشمی لباس وٹاٹ، چوپائے کی سواری و ہوائی جہاز،نرم نرم اونچے اونچے گدےوبوریے نیز اس طرح کے جتنے مادی امتیازات دنیا والوں کی نگاہ میں ہوسکتے ہیں وہ سب کے سب اِن حضرات کی نگاہِ حقیقت میں برابر سرابرہیں،ان میں ذرہ برابر بھی تفاؤت نہیں؛ لیکن عام دنیادار، مادہ پرست،اور ظاہر بیں کی نگاہوں میں مادی اعتبار سے امتیازات اورفرق مراتب پائےجاتے ہیں،لیکن یہ حضرات مادی وظاہری چیزوں کی کمی وزیادتی کو نہیں دیکھتے؛ بلکہ وہ دل کو دیکھتے ہیں کہ وہ کتنا اللہ اور اس کے رسول کی یاد میں کھویا ہوا رہتا ہے اور ان کے احکامات پر کتنا عمل کرتا ہے اسی اعتبار سے اس کا ان حضرات کے نزدیک مقام ومرتبہ ہوتا ہے۔
★=====★
No comments:
Post a Comment
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔
لوگوں سے اپنے لۓ کثرت سے احپھی دعائیں کروایا کرو۔ بندہ نہیں جانتا کہ کس کی دعا اس کے حق میں قبول کی جاۓ۔ یا کس کی دعا کی وجہ سے اس پر رحم کیا جاۓ۔
کنزالعمال، (3188)
●موطا امام مالک●
نوٹ: اگر آپ کے پاس اس سلسلہ کا مستند مواد یا کتاب pdf فائل کی شکل میں موجود ہوں تو ہم کوبھیج کرقرآن کریم کی آیت:
(تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى )
(مومنوں کی صفات میں سے ایک صفت یہ ہے کہ وہ) بھلائی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں کا مصداق بنیں،اگر انتظامیہ مناسب خیال کرے تو ان شاءاللہ تعالی اس کو سائٹ پر ڈالا جائےگا۔
★=====★
♥کآپ کی دعاؤں کا طالب♥
⊙ جزاكم الله کل خير واحسن جزاء فی الدنيا والاخرة⊙