اسلامی دنیا کا جائزہ



اگر ہم ساری اسلامی دنیا کا جائزہ لیکر دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ آج مسلمان جتنی بڑی تعداد میں ہے اِس سے پہلے کبھی نہیں تھے آج اُن کے پاس جتنی حکومتیں،جتنا دھن دولت،جتنی یونیورسٹیاں، جتنے تعلیمی ادارے، جتنے محلات وکوٹھیاں اور کتنے ہی بڑے بڑےکتب خانے ہیں اورکتنی ہی فوج،فوجی آلاتِ حرب ونیوکلیر طاقت اور کتنا ہی الکٹرانک میڈیا وپرنٹ میڈیا وغیرہ ہے، اتنا پچھلی صدیوں میں کبھی اورکہیں بھی نہیں ملے گا،اِن تمام مادی قوتوں، طاقتوں اورعصری اٰلات سے لیس ہونے کے باوجود آج مسلمان گاجر مولی کی طرح کاٹے جارہے ہیں ،ان کی کھلے عام بے عزتی کی جارہی ہے، اُن کو رسوا کرنے کی سازشیں رچی جارہی ہیں اوراِن کے جانوں، مالوں عزت وآبرو کو پامال کیا جا رہا ہے اور ان کی کوئی وقعت وحیثیت باقی نہیں رکھی جارہی ہے،یہ سب کیوں ہورہا ہے؟ آج دنیا کی نظر سے کیوں گرتے جارہے ہیں؟ اس کے کیا وجوہ واسباب ہیں؟ اور اس کے سدباب کے لیے کیا کیا تدابیر اختیار کئے جاسکتے ہیں؟۔

اس بات پر کافی غور وخوض ہورہا ہے کہ امت میں عمومی طورپر سدھار ودرستی کیوں پیدا نہیں ہورہی ہے؟ اور یہ زبوں حالی کیوں بڑھ رہی ہے؟ اِس پر ہر دانشمند و مفکر انفرادی واجتماعی طورپر سونچ رہا ہے اور مختلف ممالک میں اس کو موضوع بنا کر کانفرس و سمینار بھی منعقد کئے جارہے ہیں اور اُن کے فیصلوں پر عمل کرکے تجربات بھی کئے جارہے ہیں؛ لیکن اُن کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ دنیا کو جتنا روشن کرنا چاہتے ہیں، دنیا اتنی ہی اندھیر ی ہوتی جارہی ہے آخر کیا بات ہے؟ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ اس کے وجوہات واسباب کیا ہیں؟ اگر اِس نکتہ پرسنجیدگی سے غوروخوض کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہم میں اور ہمارے معاشرہ میں ایسےایسے احکامات توڑے اور چھوڑے جارہے ہیں کہ جن کا صحابہؓ کے زمانہ میں توڑنے اورچھوڑنے کا تصور کرنا بھی محال تھا تو، ایسی ناقص دینداری کے ساتھ ہم کامیابی کے نتائج وثمرات کہاں دیکھ سکتے ہیں،اس سے معلوم ہوا کہ اصل تشخیص ہی میں غلطی ہورہی ہے،جب بنیادی طور پر تشخیص ہی صحیح نہ ہوتو غلط تشخیص کا علاج غلط ہی ہوگا،جب علاج ہی غلط ہورہا ہے تو امت سے یہ کفروشرک، بدعات ورسومات،اعتقادی وعملی بد عقیدگیوں کی بیماریاں کہاں ختم ہوں گی؟ اوروہ صحت یاب ہو کر ایک صالح معاشرہ کب تشکیل دیگی؟ اگرنتائج ورپورٹ پر باریک بینی سے غور وفکر کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مرض کچھ اور ہے، دوا کچھ اوردیجارہی ہے، اِس سے مرض کہاں ختم ہوگا؟ مرض جوں کاتوں باقی رہیگا؛بلکہ اس مصرعہ کا مصداق ہوگا کہ:

مرض بڑھتا ہی گیا جوں جوں دوا کی

 اگر جلد صحیح دوانہ پہنچی تو اوربڑھتاہی جائے گا اور بہت ممکن ہے کہ اِس دوا کا بھی الٹا اثر(ری آیکشن) شروع ہوجائے؛ کیوں کہ ایمانی جسم کفر وشرک ،رسوم وبدعات اعتقادی وعملی بدعقیدگیوں سے اتنا نحیف وکمزور پڑگیا کہ اب اُس میں قوتِ مدافعت والا جسمانی نظام مکمل طورپر مفلوج ہو کر رہ گیا جس کی وجہ سے چھوٹے سے چھوٹا نقصان پہنچانے والا جرثومہ (فعلِ بد) بھی ایسا شیر وبہادر ہوگیا کہ وہ ایمانی واعمالی مضبوط قلعہ کو مسمار وزمین دوز کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔

اس کو دوسرے الفاظ میں اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ آج دنیا میں اس بیمارکمزور امت کو صحت یاب وتندرست کرنے کی مختلف انداز سے جو کوششیں اور تدابیر اختیار کئے جارہے ہیں وہ سب کی سب کوششیں اصل امتی اورانسان پر نہیں ہورہی ہیں یعنی اُس کے دل کی درستگی کی کوشش وتدبیر نہیں ہورہی ہے (الاماشاء اللہ جو ہورہی ہے وہ اتنی سست رفتار ی سے ہورہی ہے کہ جو نہ ہونے کے برابر ہے) یہ امت روحانی دل کی بیمار(ہاٹ پیشنٹ) ہے لیکن اُس کی تشخیص دیگر اعضاء وجوارح کے متاثر ہونے سے کی جارہی ہے اور اُن کے درست وصحیح ہونے کی دوائیں دی جارہی ہیں تو مرض کم ہونے کے بجائے اور بڑھتا ہی جارہا ہے۔

★=====★

No comments:

Post a Comment

سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔
لوگوں سے اپنے لۓ کثرت سے احپھی دعائیں کروایا کرو۔ بندہ نہیں جانتا کہ کس کی دعا اس کے حق میں قبول کی جاۓ۔ یا کس کی دعا کی وجہ سے اس پر رحم کیا جاۓ۔
کنزالعمال، (3188)
●موطا امام مالک●

نوٹ: اگر آپ کے پاس اس سلسلہ کا مستند مواد یا کتاب pdf فائل کی شکل میں موجود ہوں تو ہم کوبھیج کرقرآن  کریم کی آیت: 

(تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى )
(مومنوں کی صفات میں سے ایک صفت یہ ہے کہ وہ) بھلائی  اور پرہیزگاری  کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں کا مصداق بنیں،اگر انتظامیہ مناسب خیال کرے تو ان شاءاللہ تعالی اس کو سائٹ پر ڈالا جائےگا۔ 

★=====★

♥کآپ کی دعاؤں کا طالب♥


⊙ جزاكم الله کل خير واحسن جزاء فی الدنيا والاخرة⊙