لفظِ صوفی کی لغوی واصطلاحی تحقیق



قرآن وحدیث میں مؤمنین کومخاطب کرنے کے لیے کئی الفاظ استعمال کئے گئے ہیں مثلاً:

ذاکرین (ہمیشہ اللہ تعالیٰ کویاد کرنے والے)

صابرین (اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمابرداری میں ہرمشکل وکٹھن دور سے گذرکر اس کی رضا وخشنودی حاصل کرنے والے)

خاشعین (عاجزی وانکساری کرنے والے)

صادقین (سچ بولنے والے)

قانتین (اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمابرداری کرنے والے)

موقنین (اللہ تعالیٰ پر یقین وبھروسہ کرنے والے)

مخلصین (خالص اللہ ہی کی عبادت کرنے والے)

محسنین (خوب اچھی طرح عبادت کرنے والے)

خائفین (اللہ تعالیٰ کے غیض وغضب سے ڈرنے والے)

وجلین (اللہ تعالیٰ کے ڈر خوف سے کپکپا جانے والے)

عابدین (اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے)

متوکلین (اللہ تعالیٰ ہی پربھروسہ کرنے والے)

متقین (گناہ اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے پرہیز کرنے والے)

مقربین (اللہ تعالیٰ کے وہ خاص بندے کہ جن کوقریب کیا گیا ہو)

ابرار (اللہ تعالیٰ کے نیک بندے)

فقراء (اللہ تعالیٰ ہی کے بھکاری بندے)

عباد (اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرنے والے)

اولیاء (اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے)

سلفِ صالحین ایک دوسرے کومخاطب کرنے کے لیے ان میں سے مختلف الفاظ وقتا فوقتا استعمال کیا کرتے تھے؛ تاہم دوالفاظ (فقراء، عباد) نے زیادہ قبولیت پائی، دونوں کی ایک ایک مثال درجِ ذیل ہے:

(۱)ایک موقع پرحضرت حسن بصریؒ نے ارشاد فرمایا:

"يَامَعْشَرَ الْفُقَرَاءِ إنَّكُمْ تُكْرَمُونَ بِاَللَّهِ وَتُعْرَفُونَ بِاَللَّهِ تَعَالَى فَانْظُرُوا كَيْفَ تَكُونُونَ مَعَ اللَّهِ تَعَالَى إذَاخَلَوْتُمْ بِهِ"۔
(الرسالۃ القشیریۃ:۱/۱۲۳، شاملہ، موقع الإسلام،المؤلف: أبوسعيد محمد بن محمد الخادمي،المتوفى ۱۱۵۶ھ)
اے فقراء کی جماعت! بے شک تم اللہ کوپہچانتے ہو اور اللہ کی تعظیم کرتے ہو؛ پس! دیکھو کہ جب تم خلوت میں ہوتو اللہ کے ساتھ کیسے ہو۔

(۲)علامہ ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ نے سیرت عمر بن الخطابؓ میں صفحہ نمبر:۲۱۶/ پر لکھا ہے:

"قَالَتْ الشفاء رَأَت فتياناً يقصدون في المشي، ويتكلمون رويداً، فقالت: ماهؤلاء؟ قالوا: نساك (یعنی عباد)"۔
(دراسة نقدية في المرويات الواردة في شخصية عمر بن الخطاب وسياسته الإداريةؓ:۱/۳۵۸،المؤلف: عبد السلام بن محسن آل عيسى، شاملہ،موقع مكتبة المدينة الرقمية،الناشر: عمادة البحث العلمي بالجامعة الإسلامية، المدينة المنورة، المملكة العربية السعودية)
شفاءؓ (بنت عبداللہ) نے چند نوجوانوں کودیکھا کہ ان کی رفتار اور گفتار میں آہستگی پائی جارہی تھی، دریافت کیا یہ کون لوگ ہیں، بتایا گیا کہ یہ عباد ہیں۔


فقراء اُن لوگوں کوکہتے ہیں جن میں فقر ہو اور عباد ان لوگوں کوکہتے ہیں جوعبادت گزار ہوں؛ چونکہ یہ دونوں لفظ اپنے موصوف کی صفت کی طرف اشارہ کرتے تھے؛ لہٰذا سلفِ صالحین اپنی باطنی صفات ومقامات پرنام پکارے جانے میں ریاکاری سے ڈرتے تھے، طبیعت کا انشراح اور ادب کا تقاضا یہی تھا کہ عادات ظاہرہ پر نام پکارا جائے، ظاہراً ان حضرات میں قدر مشترک صوف کا لباس تھا جسے یہ سنت سمجھ کر پہنتے تھے دواحادیث درجِ ذیل ہیں:

(۱)شیخ ابوزرعہ طاہر بن محمد بن طاہر نے اپنے مشائخ کی اسناد کے حوالے سے حضرت انس بن مالکؓ کی حدیث بیان کی ہے:

"كان النبي صلى الله عليه وسلم يلبس الصوف، ويركب الحمار"۔
(الزهد للمعافى بن عمران الموصلي:۱/۹۷، شاملہ، موقع جامع الحديث)
نبی اکرمﷺ اون کا لباس پہنتے اور گدھے کی سواری کرتے تھے۔

(۲)حضرت علی ہجویریؒ نے"کشف المحجوب"میں ایک روایت نقل کی ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا:

"علیکم بلبس الصوف تجدون حلاوۃ فی قلوبکم"۔
تم اون کا لباس پہنو! ایمان کی حلاوت اپنے دلوں میں پاؤ گے۔

چونکہ صوف کا لباس اُونی کپڑا پہننا انبیاء علیہم السلام کی عادت اور اولیاء واصفیاء کا شعار تھا؛ لہٰذا انہیں ظاہری لباس کی طرف منسوب کردیا گیا؛ پس!صوفی ایک مجمل اور عام نام ہوا جو ان کے تمام علوم، اعمال، اخلاق اور تمام شریف اور قابل ستائش احوال کی خبردیتا ہے، 

حضرت ابونصر سراج طوسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

"اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خاص اصحاب کاقرآن مجید میں تذکرہ کیا تو انہیں ان کے ظاہری لباس کی طرف منسوب کیا:

"إِذْقَالَ الْحَوَارِيُّونَ"
(المائدۃ:۱۱۲)
"ترجمہ:جب حواریوں نے کہا"

یہ لوگ سفید لباس پہنا کرتے تھے؛ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے انہیں اس کی طرف منسوب کردیا اور جن علوم واحوال سے یہ موسوم تھے ان میں سے کسی نوع کی طرف منسوب نہیں کیا، میرے نزدیک صوفیہ کا بھی یہی معاملہ ہے"۔                            
(کتاب اللمع فی التصوف:۵۵)

مندرجہ بالا دلائل سے یہ بات ثابت ہوئی کہ صوفی کا لفظ صوف سے مشتق ہے یہی قول اقویٰ ہے، شیخ ابوبکر ابراہیم بخاریؒ القلابازی نے اپنی کتاب"التعارف المذہب التصوف"میں لغوی تحقیق کے حوالے سے اس بات کوثابت کیا ہے جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:

(۱)بعض حضرات کہتے ہیں کہ صوفی کا لفظ"صفا"سے بنا ہے وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ صوفی کا مقصود صفائی باطن کا حاصل کرنا ہے؛ اگرایسا ہوتا تویہ لفظ"صفاوی"ہونا چاہیے تھا۔

(۲)بعض حضرات کہتے ہیں کہ صوفی کا لفظ"صف"سے بنا ہے وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ لوگ قیامت کے دن اگلی صفوں میں ہوں گے؛ اگرایسا ہوتا تویہ لفظ"صفی"ہونا چاہیے تھا۔

(۳)بعض حضرات کہتے ہیں کہ صوفی کا لفظ"صفہ"سے بنا ہے وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ لوگ اصحاب صفہ کی یادگار ہیں اگرایسا ہوتا تویہ لفظ"صُفِی"ہونا چاہیے تھا۔

(۴)بعض حضرات کہتے ہیں کہ"صوفی"کا لفظ"صُوف"سے بنا ہے وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ لوگ صوف کا لباس پہنتے تھے؛ اگرایسا ہے تو یہ لفظ"صوفی"ہی ہونا چاہیے تھا معلوم ہوا کہ صوفی کا لفظ مشق"صوف"سے ہے مقصود اس کا"صفا"ہے نسبت اسے اصحاب"صُفہ"سے ہے اور قیامت کے دن اس کا مقام"صف"اوّل ہوگا۔


صوفی کے لفظ کی نسبت صوف (پشمینہ، یعنی وہ اُونی کپڑا جومویشیوں کے بالوں سے تیار کیا جاتا ہے) سے ہونے میں کئی حکمتیں بھی ہیں:

(۱)اونی کپڑا نرم ہوتا ہے پس! صوفی وہ شخص ہے جودل کونرم بنانے کے لیے محنت کررہا ہو۔

(۲)اونی کپڑا سفید ہوتا ہے پس! صوفی وہ شخص ہے جواپے دل کوصوف کی طرح سفید کرنے کے لیے محنت کررہا ہو۔

(۳)اونی کپڑا کسی رنگ کوجلدی قبول نہیں کرتا پس! صوفی وہ شخص ہے جو"صبغۃ اللہ"اللہ کے رنگ میں ایسا رنگا جاچکا ہو کہ اب ماسوا کا رنگ اس پر اثرانداز نہیں ہوسکتا۔

صوفی کے عنوان سے متعلقہ چند مشہور سوالات کے جوابات قلمبند کیئے جاتے ہیں:

سوال نمبر:۱۔ صوفی کا لفظ جن الفاظ سے ماخوذ ہے کیا ان کا ذکر قرآن وحدیث میں کہیں ملتا ہے؟۔

جواب: جی ہاں! صوفی کا لفظ جن الفاظ سے ماخوذ ہے ان کا تذکرہ قرآن وحدیث میں موجود ہے، تفصیل درجِ ذیل ہے:

(۱)ایک قول کے مطابق صوفی کا لفظ صف سے ماخوذ ہے توقرآن پاک میں ہے:

"إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ"۔    
(الصف:۴)
بیشک اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کوپسند فرماتا ہے جواللہ کے راستہ میں صفیں باندھ کرجہاد کرتے ہیں؛ یوں لگتا ہے کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔

(۲)دوسرے قول کے مطابق صوفی کا لفظ صفا سے ماخوذ ہے توحدیث پاک میں ہے:

"عن أبي جحيفة قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم متغير اللون فقال: "ذهب صفو الدنيا وبقي الكدر، فالموت اليوم تحفة لكل مسلم"۔
(الرسالۃ القشیریۃ:۱/۱۲۶، شاملہ، موقع الوراق،المؤلف: أبوسعيد محمد بن محمد الخادمي،المتوفى ۱۱۵۶ھ)
حضرت ابوجحیفہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی علیہ السلام ہم پر نکلے آپ کا رنگ متغیر تھا آپ نے فرمایا کہ دنیا کی صفائی چلی گئی اور میل کچیل رہ گئی پس آپ تو موت ہر مسلمان کے لیے تحفہ ہے۔

(۳)تیسرے قول کے مطابق صوفی کا لفظ صفہ سے ماخوذ ہے توحدیث پاک میں ہے:

"عن ابن عباس قال وقف رسول الله صلى الله عليه وسلم على أصحاب الصفة فرأى فقرهم وجهدهم وطيب قلوبهم فقال أبشروا ياأصحاب الصفة فمن بقي من أمتي على النعت الذي أنتم عليه راضيا بمافيه فإنه من رفقائي"۔           
(کشف المحجوب)
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اکرمﷺ اصحاب صفہ پر تشریف لائے، آپ نے ان کے فقر اور مشقت کومحسوس کیا توفرمایا: خوش ہوجاؤ اہلِ صفہ، پس! جوشخص میری امت سے تمہاری روش پر رہنا پسند کریگا وہ بہشت میں میرا ساتھی ہوگا۔

(۴)چوتھے قول کے مطابق صوفی کا لفظ صوف سے ماخوذ ہے توحدیث پاک میں ہے:

"كان النبي صلى الله عليه وسلم يلبس الصوف، ويركب الحمار"۔
(الزهد للمعافى بن عمران الموصلي:۱/۹۷، شاملہ، موقع جامع الحديث)
نبی اکرمﷺ صوف کا لباس پہنتے اور گدھے کی سواری کرتے تھے۔


سوال نمبر:۲۔ لفظ صوفی کی کوئی اہمیت ہوتی توقرآن وحدیث میں من وعن موجود ہوتا؟۔

جواب: کسی لفظ کا من وعن قرآن وحدیث میں موجود نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ لفظ غیراہم یاغیراسلامی ہے، مثال کے طور پر متکلمین کا لفظ قرآن وحدیث میں من وعن کہیں موجود نہیں توکیا علم کلام غیراسلامی ہوگیا، اس کے بغیر تواسلامی عقائد بھی ثابت نہیں کیئے جاسکتے؛ اسی طرح نحو کا لفظ قرآن وحدیث میں موجود نہیں توکیا علم النحو فضول اور غیراہم ہے، اس کے بغیر توقرآن وحدیث کوسمجھنا بھی ممکن نہیں۔

سوال نمبر:۳۔ صحابہ کرامؓ کے دور میں توکسی کوصوفی نہیں کہا جاتا تھا؟۔

جواب: رسول اللہﷺ کی صحبت میں رہنے کی ایک خاص عظمت اور خصوصیت تھی، جسے یہ نعمت نصیب ہوگئی اس پرکوئی اور نام چسپاں کرنا گستاخی تھی، صحابہ کرامؓ تونسبت اور صحبت کی وجہ سے زاہدوں، عابدوں، متوکلوں، صابروں، اطاعت گزاروں اور فقراء کے پیشواء ہیں تمام احوال میں سے بہترین اور بزرگ تیرن حال ان کونصیب تھا، اب انہیں کسی اور فضیلت کی وجہ سے فضیلت دینا ناروا ہے، حدیث پاک میں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

"خَيْرُ الْقُرُونِ قَرْنِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ"۔
(مسند البزار كاملا،حدیث نمبر:۴۵۰۸، صفحہ نمبر:۲/۱۴۹، شاملہ،القسم:کتب المتون) 
بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے پھران لوگوں کا زمانہ جواُن کے بعد آئیں گے؛ اسی طرح پھران لوگوں کا جوان کے بعد آئیں گے۔

پس ساری دنیا کی سعادتیں اور بھلائیاں مل کربھی صحبت رسولﷺ کا نعم البدل نہیں ہوسکتیں، امام شافعیؒ سے پوچھا گیا کہ سیدنا امیرمعاویہؓ افضل ہیں یاحضرت عمربن عبدالعزیزؒ؟ توامام شافعیؒ نے جواب دیا کہ سیدنا امیرمعاویہؓ جب نبی علیہ السلام کی معیت میں جہاد پر نکلے توان کے گھوڑے کی ناک میں جومٹی گئی وہ مٹی بھی عمربن عبدالعزیزؒ سے افضل ہے اس لیے علماء کرام نے لکھا ہے کہ ساری دنیا کے اتقیاء، اصفیاء اور اولیاء مل کر بھی کسی ادنی صحابیؓ کے درجے کونہیں پہنچ سکتے۔

پس جن لوگوں نے رسول اللہؐ کی صحبت پائی وہ خوش نصیب حضرات صحابی کہلائے؛ جنھوں نے صحابہؓ کی صحبت پائی وہ تابعین کہلائے اور جنھوں نے تابعین کیص صحبت پائی وہ تبع تابعین کہلائے یہ تینوں نسبتیں مندرجہ بالا فرمان نبویﷺ کی بنا پر خیرکی غمازی کرتی تھیں؛ لہٰذا ہرشخص اس نسبت کے ساتھ پکارا جانا اپنی سعادت سمجھتا تھا؛ پس! صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے بعد امت کے مشائخ صوفیا کے نام سے مشہور ہوئے حضرت امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق مطابق یہ لفظ دوسری صدی ہجری سے پہلے زبان زدعام تھا۔

سوال نمبر:۴۔ صوفی کا لفظ سب سے پہلے کب استعمال ہوا؟ سنا ہے کہ یہ اہلِ بغداد کی ایجاد ہے؟۔

جواب:حضرت ابونصر سراج طوسیؒ نے تاریخ مکہ کے حوالے سے محمد بن اسحاق بن یسارؒ اور دیگرلوگوں کی روایت سے یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ:"اسلام سے پہلے ایک بار مکہ خالی ہوگیا تھا یہاں تک کہ بیت اللہ کا طواف کرنے والا کوئی نہ تھا دوردراز سے ایک صوفی آتا اور بیت اللہ کا طواف کرکے واپس چلا جاتا"۔

تاریخ کے اس حوالے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ نام اہلِ عرب کواسلام سے پہلے بھی معلوم تھا صاحب فضیلت اور صالح لوگ اسی نام سے موصوف ہوتے تھے، واللہ اعلم۔

حضرت حسن بصریؒ جنھوں نے اٹھارہ بدری صحابہؓ کی صحبت کا شرف حاصل کیا اور سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے باطنی فیض پایا، ان کے وقت میں صوفی کا مستعمل ہونا تویقینی امر ہے، حضرت ابونصر سراج طوسیؒ فرماتے ہیں:
"لوگوں کا یہ کہنا کہ یہ نام بغدادیوں نے گھڑلیا ہے غلط ہے؛ چونکہ یہ نام توحسن بصریؒ کے عہد میں بھی مستعمل تھا، حضرت حسن بصریؒ سے روایت ہے کہ میں نے طواف کے دوران ایک صوفی کودیکھا اور اسے کچھ دیا، اس نے نہیں لیا اور کہنے لگا، میرے پاس چار دانق پڑے ہیں اور کافی ہیں"۔
(کتاب اللمع فی التصوف:۶۵)

معلوم ہوا کہ صوفی کا لفظ تابعین کے دور میں احیاناً استعمال ہوتا تھا، تبع تابعین کے دور میں نسبتاً زیادہ استعمال ہونے لگا اور ان کے بعد دوسری صدی ہجری سے پہلے زبان زد عام ہوگیا، امام سفیان ثوریؒ اپنے وقت کے ایک شیخ کوابوہاشم صوفی کہا کرتے تھے، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت کے ایک شیخ ابوحمزہ بغدادیؒ کوصوفی کہتے تھے۔

صوفی کون ہوتا ہے؟

حضرت حسن بصریؒ کے شاگرد عبدالواحد بن زیدؒ سے پوچھا گیا صوفیاء کون ہوتے ہیں؟ فرمایا جواپنی عقلوں کے ذریعہ اپنے ارادوں پر قائم ہوتے ہیں اور اپنے دلوں سے اس پر ڈٹے رہتے ہیں اور اپنے شر سے بچنے کی خاطر اپنے آقا کو مضبوط پکڑے رہتے ہیں۔

 حضرت ذوالنون مصریؒ سے پوچھا گیا تو فرمایا:"صوفی وہ ہے جسے جستجو تھکانہ سکے اور محرومیت کی وجہ سے بے چین نہ ہو"۔

حضرت ابومحمدرویمؒ سے پوچھا گیا توفرمایا:"جس کا کردار اس کی گفتار کے موافق ہو"۔

کسی عارف نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے یوں فرمایا کہ صوفی وہ ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی وگناہوں کے میل کچیل سے پاک صاف ہو اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی یاد اس کے دل ودماغ پر چھائی رہے وہ ہمیشہ آخرت کے معاملہ میں متفکر رہتا ہو اور اللہ تعالیٰ کے حاضر ناظر اور اس کے قریب ترین ہونے کے استحضار نے اُس کو مخلوق سے دور کردیا ہو اور اس کی نگاہ میں سونا اور مٹی برابر ہو۔

حضرت شبلی ؒ نے فرمایا:"صوفی وہ ہے جومخلوق سے کٹے اور اللہ سے جڑے"۔

خلاصہ کلام

پس صوفی وہ ہوتا ہے جس کوجانوروں کی آواز، ہرایک سوزوساز، چڑیوں کی چہک، پھولوں کی مہک، سبزے کی لہک، جواہرات کی دمک، سورج کی چمک، سماء وسمک، درختوں کے رنگ، شیشہ وسنگ، پتھر کی سختی، خوشحالی وبدبختی، زمین کی نرمی، آتش کی گرمی، دریا کی روانی، کواکب آسمانی، پہاڑوں کے ابھار، جنگلوں وبیابانوں کی سبزہ زاریاں، خزاں وبہار، غرض یہ کہ دنیا کی ہروہ چیز جس پر وہ نظرڈالے ایک ہی نادیدہ ہستی یعنی اللہ تعالیٰ کی یاد دلائے اس میں اس کو اللہ تعالیٰ نظر آئے، یعنی اس کی قدرت وکرشمات کہ جس کے ذریعہ سے وہ اللہ کی ذات کوپالے۔
(تصوف وسلوک:۱۵ تا ۲۲، حضرت مولانا پیرذوالفقار احمد صاحب نقشبندی مدظلہ،ناشر:فریدبک ڈپو، نیودہلی)

No comments:

Post a Comment

سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔
لوگوں سے اپنے لۓ کثرت سے احپھی دعائیں کروایا کرو۔ بندہ نہیں جانتا کہ کس کی دعا اس کے حق میں قبول کی جاۓ۔ یا کس کی دعا کی وجہ سے اس پر رحم کیا جاۓ۔
کنزالعمال، (3188)
●موطا امام مالک●

نوٹ: اگر آپ کے پاس اس سلسلہ کا مستند مواد یا کتاب pdf فائل کی شکل میں موجود ہوں تو ہم کوبھیج کرقرآن  کریم کی آیت: 

(تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى )
(مومنوں کی صفات میں سے ایک صفت یہ ہے کہ وہ) بھلائی  اور پرہیزگاری  کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں کا مصداق بنیں،اگر انتظامیہ مناسب خیال کرے تو ان شاءاللہ تعالی اس کو سائٹ پر ڈالا جائےگا۔ 

★=====★

♥کآپ کی دعاؤں کا طالب♥


⊙ جزاكم الله کل خير واحسن جزاء فی الدنيا والاخرة⊙