حضرت سیّدنا عبدالقادر جیلانیؒ(۴۷۰ء۔تا۔۵۶۱ء)

حضرت شیخ سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ صوفیائے کرام اور اولیاء عظام میں بلند ترین مرتبہ کے حامل بزرگ ہیں، آپ کی تعلیمات بے حد صاف اور عین شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہیں، آپ کی پیدائش ایران کے شہر گیلان میں ۴۷۰ھ میں ہوئی، آپ سلسلۂ نسب کے لحاظ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بارہویں نسل میں سے تھے، آپ نے اپنی تمام تر تعلیمات میں واحدانیت پر زور دیا، آپ علوم اسلامیہ کے ہر فن میں اچھی دسترس رکھتے تھے، فقہ اور حدیث میں آپ بے نظیر اوصاف جلیلہ کے حامل تھے، آپ بچپن کی عمر سے ہی پاک عادات و اطوار کے مالک اور نماز روزے کے پابند تھے، حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ نے درس حدیث و علوم اسلامی کا باقاعدہ آغاز ۵۳۰ھ میں کیا، ابتداء میں چند معدودے افراد ہی درس میں حاضر ہوتے، مگر رفتہ رفتہ یہ تعداد ہزاروں تک جاپہنچی اور بہت سے افراد حلقہ بگوش اسلام ہوئے، حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ ۵۶۱ھ میں بغداد میں وفات پائے۔

♥ان کے کچھ ملفوظاتِ زرّین ملاحظہ کیجئے:
(۱) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرو، اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پر چلو، دین میں نئی بت نہ نکالو، نافرمانی مت کرو۔
(۲) اے مسلمانو! صبر کرو بے صبر نہ ہو، کشائش کا انتظار کرو، نا امید نہ ہو۔
(۳) اللہ تعالیٰ کے ذکر پر سب متفق ہوجاؤ
(۴) آپس میں پھوٹ پیدا نہ کرو، اتحاد قائم رکھو۔
(۵) توبہ کرکے گناہوں سے پاک ہوجاؤ، معصت کی گندگی سے آلودہ نہ ہو اور اپنے مولیٰ کے دروازے سے نہ ہٹو۔
(۶) فرائض کے بعد اچھے کاموں پر غور کرنا محتاجوں کو اور مہمانوں کو کھانا کھلانا اور عوام و خواص کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنے سے بڑھ کر کسی کام کو اچھا پاتا، اگر تمام دنیا کی دولت مجھے مل جائے تو فقراء اور مساکین کو کھلادیتا۔
(۷) اللہ کے ہوجاؤ، تقویٰ ضروری سمجھو، اپنے نفس کا ساتھ نہ دو ار صبر کا دامن تھام لو۔
(۸) اللہ کے طلبگار بن جاؤ اور غرور باز آجاؤ۔
(۹) ظاہری بناؤ سنگھار سے باز آجاؤ۔
(۱۰) تمہارے دل کس قدر سخت ہوگئے۔
(۱۱) تمہارے درمیان سے رحمت و شفقت اٹھ گئی، شریعت کے احکام تمہارے پاس امانت تھے، جن کو تم نے چھوڑدیا۔
(۱۲) اپنے سروں کو اللہ سوا دوسروں کے آگے جھکانے سے محفوظ رکھو۔
(۱۳) اندھے پن اور غفلت کے ساتھ لوگوں کے ساتھ میل جول نہ رکھو۔
(۱۴) مالدار بننے کی کوشش نہ کرو او بو الہوس مت بنو۔
(۱۵) علم بغیر عمل کے بیکار ہے۔
(۱۶) کماؤ اپنی محنت کے ذریعہ، اپنے دین کے ذریعہ مت کماؤ۔
(۱۷) کماؤ اور کھاؤ اور اس کے ذریعہ دوسروں کی غمخواری بھی کرو۔
(۱۸) اللہ شکورہ بندے سے مت کرو۔
(۱۹) اللہ سے ڈرنا کامیابی کی کنجی ہے۔
(۲۰) غنیمت سمجھو زندگی کے دروازہ کو جب تک وہ کھلا ہوا ہے۔
(۲۱) بدکاروں کی صحبت سے ہمیشہ دور رہو۔
(۲۲) اللہ سے شرماؤ، غفلت میں نہ پڑو۔
(۲۳) شریعت پر عمل کرنے سے ہی روحانی ترقی ملتی ہے۔
(۲۴) طلب کرو یا نہ کرو مقدر میں لکھا رزق ملے گا۔
(۲۵) احمق کی صحبت بہت نقصاندہ ہے۔
(۲۶) اگر تو جاہلوں کی صحبت اختیار کرے گا تو ان کی جہالت تجھ تک ضرور پہنچے گی۔
(۲۷) اپنی حقیقت کو پہچانو۔
(۲۸) جس نے اپنے عمل دنیا کے لئے کئے اس نے وقت ضائع کیا، اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہر عمل قابل ستائش ہے۔
(۲۹) ریاء کار کا کپڑا صاف مگر دل گندہ ہوتا ہے۔
(۳۰) ایمانداروں کی آزمائش ضرور ہوتی ہے۔
(۳۱) خدمت کرو گے تو مخدوم بن جاؤ گے۔
(۳۲) عبادت میں تکلف نہ برتو۔
(۳۳) افسوس کہ تم حافظ قرآن بنتے ہو مگر اس پر عمل نہیں کرتے۔
(۳۴) افسوس کہ تم سنت رسولؐ کے حافظ بنتے ہو مگر اس کی عملی موافقت نہیں کرتے۔
(۳۵) دوسروں کو حکم دیتے ہو اور خود عمل نہیں کرتے، تم کیوں کہتے ہو ایسی بات جو خود نہیں کرتے، تم کو شرم نہیں آتی۔
(۳۶) کیوں دعویٰ کرتے ہو ایمان کا حالانکہ تم خود مومن نہیں ہو۔
(۳۷) بغیر عمل کے تحصیل علم میں عمر ضائع نہ کرو۔
(۳۸) شریعت کے حدود کی حفاظت کرو۔
(۳۹) عارف مصیبتوں میں مبتلا رہ کر بھی دم نہیں مارتا۔
(۴۰) اول ظاہری فقہ حاص کرو، پھر باطنی فقہ کی تحصیل کے لئے حرکت کرو۔
(۴۱) تونگری کی طلب چھوڑدو تونگر بن جاؤگے۔
(۴۲) مالدار اور فقیر کے درمیان امتیاز نہ رکھو۔
(۴۳) عامل بن جاؤ، جان بوجھ کر جاہل نہ بنو۔
(۴۴) عالم با عمل اللہ کا نائب ہوتا ہے۔
(۴۵) بندے کے دل کی آبادی اسلام ہے، تم نفس کی دنیا کے اور خواہش کے بندے نہ بنو۔
(۴۶) عبادت پر گھمنڈ مت کرو۔
(۴۷) تمہارے اقوال ہیں افعال نہیں اور افعال ہیں تو ان میں توحید اور اخلاص نہیں۔
(۴۸) دنیا سے کچھ بھی محبت رکھو گے تو ہرگز فلاح نصیب نہ ہوگی۔
(۴۹) جہاد باطن جہادِ ظاہر سے زیادہ سخت ہے۔
(۵۰) روزہ دار بن کر دن دن بھر پیاسا رہنا اور شام کو مالِ حرام سے افطار کرنا کیا کار آمد ہوگا؟ حرام خورو! تم دن میں اپنے آپ کو پانی پینے سے روکتے ہو اور افطار کا وقت آتا ہے تو مسلمان کے خون سے افطار کرتے ہو۔
(۵۱) تم سیر ہوکر کھاتے ہو حالانکہ تمہارے پڑوسی بھوکے ہوتے ہیں اور پھر دعویٰ کرتے ہو مسلمان ہونے کا۔
(۵۲) میں کہتا ہوں یا تو اسلام کے جملہ شرائط کے پابند بنو، ورنہ مسلمان ہونے کا زبانی دعویٰ نہ کرو۔
(۵۳) تم مخلوق کی غمخواری کرو اللہ اپنی رحمت سے تمہاری غمخواری کرے گا، تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔
(۵۴) برداشت اور قطع شر کی عادت ڈالو۔
(۵۵) واعظ مت بنو، ظاہر کو خوبصورت مت بناؤ، جبکہ تمہارا باطن بگڑا ہوا ہے۔
(۵۶) کوشش تو کرو، مدد کرنا اُس کا کام ہے، اس سمندر میں ہاتھ پاؤں مارو، موجیں تمہیں اٹھاکر اور چلٹے دے کر کنارہ تک لے ہی آئیں گی۔
(۵۷) نصیحت وہی کارگر ہوتی ہے جو عمل کی زبان سے ہو۔
(۵۸) تمام خوبیوں کا مجموعہ علم سیکھنا اور عمل کرنا اور پھر اوروں کو سکھانا ہے۔
(۵۹) اول جہل ہوتا ہے، پھر علم، پھر اس پر عمل، پھر عمل میں اخلاص اور پھر عملِ قلبی۔
(۶۰) جب عالم زاہد نہ ہو تو اپنے زمانہ والوں پر عذاب ہوتا ہے۔
(۶۱) قولِ بے عمل اور عملِ بے اخلاص ناقابلِ قبول ہے۔
(۶۲) عملِ صالح وہ ہے جس پر لوگوں سے ثناء کی امید نہ رکھی جائے۔
(۶۳) مصیبتوں کو چھپاؤ اس سے قرب الٰہی نصیب ہوگا۔
(۶۴) ایمان اصل ہے اور اعمال فرع، لہٰذا ایمان میں شرکت سے اور اعمال میں معصیت سے بچو۔
(۶۵) جب تک روئے زمین پر ایک شخص بھی ایسا رہے کہ جس کا تمہارے دل میں خوف ہو یا اس سے کسی قسم کی توقع ہو اس وقت تک تمہارا ایمان کامل نہیں ہوسکتا۔
(۶۶) مومن کے لئے دنیا دارِ ریاضت و محنت ہے اور آخرت دارِ راحت ہے۔
(۶۷) مومن اپنے اہل و عیال کو اللہ تعالیٰ پر چھوڑتا ہے اور منافق درہم و دینار پر۔
(۶۸) تمہارے اخلاص کی علامت یہ ہے کہ تم مخلوق کی تعریف اور مذمت کی طرف توجہ نہ کرو۔
(۶۹) مومن جس قدر بوڑھا ہوتا ہے اس کا ایمان اسی قدر طاقتور ہوتا ہے۔
(۷۰) جو شخص اپنے نفس کا اچھی طرح معلم نہیں ہوسکتا وہ دوسروں کا کس طرح ہوگا۔
(۷۱) شروع کرنا تمہارا کام ہے اور مکمل کرنا اللہ قادرِ مطلق کا کام ہے۔
(۷۲) خالق کا مقرب وہی بنتا ہے جو مخلوق پر شفقت کرتا ہے۔
(۷۳) اگر تم خالق کے ساتھ ہو تو اس کے بندے ہو اور اگر مخلوق کے ساتھ ہو تو مخلوق کے بندے ہو۔
(۷۴) دنیا کی محبت سے خاصانِ خدا کو پہچاننے والی آنکھ اندھی رہتی ہے۔
(۷۵) تم جیسے ہزاروں کو دنیا نے موٹا تازہ کیا اور پھر نگل گئی۔
(۷۶) وہ کس قدر بدنصیب انسان ہے کہ جس کے دل میں جانداروں کے لئے رحم نہیں۔
(۷۷) تمہارے سب سے بڑے دشمن تمہارے بُرے ہمنشین ہیں۔
(۷۸) تمہاری غفلت کی علامت اہل غفلت کی پاس بیٹھنا ہے۔
(۷۹) شکستہ قبروں پر غور کرو کہ کیسے کیسے حسینوں کی مٹی خراب ہورہی ہے۔
(۸۰) ہنسنے والوں کے ساتھ مت ہنسا کرو، بلکہ رونے والوں کے ساتھ رویا کرو۔
(۸۱) گمنای کو پسند کرو کہ اس میں ناموری کی نسبت بڑا امن ہے۔
(۸۲) جب تک متکبر اور غصہ والے ہو اپنے آپ کو اہل علم میں شمار مت کرو۔
(۸۳) تم مخلوق کو راضی کرنے میں خالق کی ناراضگی کی پرواہ نہیں کرتے۔
(۸۴) بدگمانی تمام فائدوں کو بند کردیتی ہے۔
(۸۵) تمہاری بات بتادے گی جو تمہارے دل میں ہے۔
(۸۶) تم کوشش کرو کہ گفتگو کی ابتداء تمہاری جانب سے نہ ہوا کرے اور تمہارا کلام جواب ہوا کرے۔
(۸۷) تم غیرضروری بات کے جواب دینے سے زبان کو باز رکھو، چہ جائے کہ تم خود فضول بات کرو۔
(۸۸) تنہا آدمی محفوظ ہے اور ہر گناہ کی تکمیل دو سے ہوتی ہے۔
(۸۹) بجز اپنی اور اپنے بچوں کی ضروریات کے گھر سے مت باہر نکلو۔
(۹۰) خلوت میں خاموشی مردانگی نہیں، جلوت میں خاموش رہو۔
(۹۱) جسے کوئی ایذاء نہ پہنچے اس میں کوئی خوبی نہیں۔
(۹۲) بے ادب، خالق اور مخلوق دونوں کا معتوب ہے۔
(۹۳) اللہ کے ساتھ ادب کا دعوی غلط ہے، جب تک تم مخلوق کے ادب کا خیال نہ رکھو۔
(۹۴) تم نفس کی تمنّا پوری کرنے میں مصروف ہو اور وہ تمہیں برباد کرنے میں۔
(۹۵) اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت فقر و فاقہ سے ملی جلی ہوتی ہے۔
(۹۶) تم اس وقت تک طالبِ صادق نہیں جب تک کہ تم اپنی خوراک میں اپنے ہمسایہ کو اپنے نفس پر ترجیح نہ دینے لگے۔
(۹۷) موت سے پہلے یادِ الٰہی میں عزت ہے، لوگوں کے کاٹنے کے وقت ہل چلانا اور بیج بونا بے سود ہے۔
(۹۸) آخرت کو دنیا پر مقدم رکھو، دونوں کا فائدہ ہوگا۔
(۹۹) جو دنیا کو آخرت پر مقدم رکھے گا تو دونوں میں نقصان اٹھائے گا۔
(۱۰۰) جس انسان پر شر غالب آجاتا ہے وہ شیطان سے مل جاتا ہے۔

(اقوال کا خزانہ)
(۱)آپ سے دنیاکے بارے میں پوچھا گیا ؟ تو آپ نے فرمایا کہ دل سے نکال کر ہاتھ میں لاؤ تو تمہارے لئے ضرر رساں نہیں ہے ( معلوم ہوا کہ ہر شئ کا ایک محل و موضع ہے اسی میں اس کو رکھنا صلاح و اصلاح ہے اور غیر محل میں اس کی وضع فساد و افساد ہے )۔

(۲)مخلوق تمہارے نفس کے درمیان حجاب ہے ، اور تمہارا نفس تمہارے رب کے درمیان حجاب ہے جب تک مخلوق پر نظر رہے گی اپنے نفس کی معرفت تمہیں حاصل نہ ہوگی ، اور جب تک تمہیں اپنے نفس کی معرفت حاصل نہ ہوگی اپنے رب کی معرفت نصیب نہ ہوگی ۔

(۳)اپنے اصحاب سے فرماتے تھے کہ قرآن و سنت کی اتباع کرو بدعت سے اجتناب کرو ، اطاعت کرو مخالفت نہ کرو ، صبر کرو جزع فزع نہ کرو ، ثابت قدم رہو متزلزل نہ رہو ، امید وار رہو نا امید نہ ہو، ذکر پر جمے رہو اس سے علٰحدگی اختیار نہ کرو ، گناہوں سے پاک و صاف رہو اس میں ملوث نہ ہو ، اور اپنے مولیٰ کے در سے جدا اور الگ نہ رہو ۔

(۴)اپنے نفس سے نکلو اور اس سے جدائی اختیار کرو ، اپنی مِلک سے الگ ہوجاؤ اور اپنی جملہ ملکیت کو اپنے مولیٰ کے سپرد کردو ، اپنے قلب کے در کے دربان بن جاؤ پس جس چیز کے داخل کرنے کا حکم دیں اس کو داخل کرو اور جس کو نکال دینے کا حکم فرمائیں اس کو نکال دو ، اور اپنے قلب میں ہوائے نفسانی کو گھسنے نہ دو ، ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے۔

(۵)اللہ تعالیٰ کی شکایت سے اپنے آپ کو بچاؤ جب کہ تم صاحبِ عافیت ہو ، اس لئے کہ اولاد ِ آدم پر اکثر بلائیں اسی شکایت کی بناء پر نازل ہوتی ہیں ۔

(۶)امراض و شدائد کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مطہِّر بنایا ہے تاکہ تم اللہ تعالیٰ کے قرب و ہمنشینی کے لائق ہوجاؤ ۔

(۷)دوامِ بلاء ولایت ِ کبریٰ والوں کی خاص علامت ہے اور یہ اس لئے تاکہ ان کو ہمیشہ جنابِ باری میں حضوری کا شرف حاصل رہے اور غیر اللہ کی طرف قطعاً میلان باقی نہ رہے ، چنانچہ جب بندے پر بلاء و مصیبت دائم ہوجاتی ہے تو اس کا قلب قوی ہوجاتا ہے اور اس کی ہوائے نفسانی کمزور پڑجاتی ہے ۔

(۸)سزا کے طور پر ابتلاء کی علامت یہ ہے کہ مبتلاء جزع فزع اور مخلوق سے شکوہ شکایت کرتا ہے ، اور گناہوں کے کفارہ کے لئے جو آزمائش ہوتی ہے اس کی علامت یہ ہے کہ صاحبِ ابتلاء جزع فزع نہیں کرتا اور امتثالِ اوامر اور طاعات کی بجا آوری میں بار محسوس نہیں کرتا ، اور ارتفاعِ درجات کے لئے آزمائش میں رضا ، موافقت ، نفس کی طمانینت ، اور قضا و قدر سے سکون و اطمینان والی حالت سے بہرہ ور ہوتا ہے ۔

(۹)میں نے تمام اعمال کا جائزہ لیا تو مجھ کو کھانا کھلانا سب سے افضل معلوم ہوا ، اس لئے میں تمنا کرتا ہوں کہ پوری دنیامیرے قبضہ میں آجائے اور میں اسے بھوکوں کو کھلادوں ۔

★=====★

No comments:

Post a Comment

سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔
لوگوں سے اپنے لۓ کثرت سے احپھی دعائیں کروایا کرو۔ بندہ نہیں جانتا کہ کس کی دعا اس کے حق میں قبول کی جاۓ۔ یا کس کی دعا کی وجہ سے اس پر رحم کیا جاۓ۔
کنزالعمال، (3188)
●موطا امام مالک●

نوٹ: اگر آپ کے پاس اس سلسلہ کا مستند مواد یا کتاب pdf فائل کی شکل میں موجود ہوں تو ہم کوبھیج کرقرآن  کریم کی آیت: 

(تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى )
(مومنوں کی صفات میں سے ایک صفت یہ ہے کہ وہ) بھلائی  اور پرہیزگاری  کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں کا مصداق بنیں،اگر انتظامیہ مناسب خیال کرے تو ان شاءاللہ تعالی اس کو سائٹ پر ڈالا جائےگا۔ 

★=====★

♥کآپ کی دعاؤں کا طالب♥


⊙ جزاكم الله کل خير واحسن جزاء فی الدنيا والاخرة⊙