اس کے لیے سب سے آسان ومضبوط الہی طریقہ کہ جسکو خود حق تعالی نے قرآن کریم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں بھیجے جانے کا مقصد جہاں:
"وَیُعَلِّمُہُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ"
(یعنی آپﷺ صحابہ رضی اللہ عنہم کو کتاب و حکمت کی باتیں بتائیں)
(البقرۃ:۱۲۹)
بتلایا ہے وہیں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی تیسری غرض:
"وَ یُزَکِّیْھِمْ"
(یعنی ان کو اخلاق رذیلہ وبری عادتوں وباتوں سے پاک و صاف کریں) بھی قرار دی ہے ،
خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی شناخت اگر کبھی
"بُعِثْتُ مُعَلِّماً"
(میں علم دین سکھلانے والا بناکر بھیجا گیا ہوں) کے ذریعہ کرائی تو کبھی:
"بُعِثْتُ لِاَتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاخْلاَق"
(یعنی میں اخلاق کی بلندیوں کی تکمیل کرنے کیلئے بھیجا گیا ہوں
(رواہ البخاری، فی الادب المفرد، حدیث نمبر:۲۷۴)
کے عنوان سے بتلائی ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ علم بلا عمل اور عمل بلا تزکیۂ باطن وتصفیۂ اخلاق قبولیت کے لائق ہونے کیلئے کافی نہیں ہے؛ بلکہ علم کے ساتھ عمل کا جڑنا اورعمل کے ساتھ اخلاص وللّٰہیت اورخدا ترسی کا جمع ہونا ضروری ہے اورظاہر ہے کہ یہ چیز بلا صحبتِ کا ملین ومعیت ِصادقین کے حاصل کرنا عادتاً ممکن نہیں،اسی لیے قرآن کریم میں تمام اہل ایمان کو مخاطب کرکے صادقین کی معیت وصحبت اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے،ارشاد ربانی ہے کہ:
" یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ"۔
(التوبہ:۱۱۹)
"اے ایمان والواللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔
حصول تقویٰ کا ذریعہ اللہ تعالی نے زیادتیٔ علم وکثرتِ معلومات کو نہیں بتلایا؛ بلکہ صحبت صادقین کو قراردیا ہے، اسی طرح حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اللہ سے ڈروخوف اورتعلق مع اللہ کی دولت کو کتابوں کے صفحات میں ڈھونڈنے کے بجائے عارفین کے قلوب سے اخذ کرنے کی تاکید فرمائی ہےاور حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
"لِکُلِّ شَیْءمَعْدِنٌ وَمَعْدِنُ التَّقْوٰی قُلُوْبُ الْعَارِفِیْنَ"۔(المعجم الکبیر،باب عبداللہ بن عمر بن الخطاب ؓ،حدیث نمبر:۱۳۱۸۵)
یعنی ہر چیز کی ایک کان اورایک خزانہ ہوتا ہے، تقوی کاخزانہ اللہ تعالی کی پہچان رکھنے والوں(عارفین) کے دل ہوتے ہیں؛ لہٰذا عارفین وصادقین کی مصاحبت اختیار کرنا چاہئے؛ تاکہ ان کی صحبت کی برکت سے ہم پر بھی عرفانِ حق ومقامِ صدیقیت کا کچھ پرتو پڑجائے، یہی صحبت کا اثر ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اپنا حال بیان فرماتے ہیں: جب ہم حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اورآپ کی مجلس میں ہوتے تو دل کی یہ کیفیت رہتی کہ ایک لمحہ کیلئے بھی غفلت نہیں ہوتی اورغیب ہمارے لیے گو یاشہود ہوجاتا؛ لیکن جب ہم اپنے گھروں میں ہوتے ہیں تو یہ کیفیت نہیں رہتی اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی قبراطہر میں تدفین کےبعد ابھی ہم اپنے ہاتھ مٹی سے جھاڑے بھی نہ تھے کہ ہم نے اپنے دلوں کو بدلاہوا پایا(یعنی حضورﷺ کے اس عالم سے عالم برزخ میں منتقل ہوجانے سے ہمارے دلوں کی حالت میں فرق پڑا، ان دونوں روایتوں سے صحبت کا قلبی کیفیات میں مؤثر ہونا صاف طورپر معلوم ہوتا ہے)۔
علوم ظاہرہ توکتابوں کےمطالعہ سے حاصل کئے جاسکتے ہیں؛ لیکن علوم باطنہ جومعنوی ،روحانی اسرار ورموز اور علوم قرب سے تعلق رکھتے ہیں وہ صرف صحبت اہل اللہ وصوفیائے حقہ ہی سے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
★=====★
No comments:
Post a Comment
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔
لوگوں سے اپنے لۓ کثرت سے احپھی دعائیں کروایا کرو۔ بندہ نہیں جانتا کہ کس کی دعا اس کے حق میں قبول کی جاۓ۔ یا کس کی دعا کی وجہ سے اس پر رحم کیا جاۓ۔
کنزالعمال، (3188)
●موطا امام مالک●
نوٹ: اگر آپ کے پاس اس سلسلہ کا مستند مواد یا کتاب pdf فائل کی شکل میں موجود ہوں تو ہم کوبھیج کرقرآن کریم کی آیت:
(تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى )
(مومنوں کی صفات میں سے ایک صفت یہ ہے کہ وہ) بھلائی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں کا مصداق بنیں،اگر انتظامیہ مناسب خیال کرے تو ان شاءاللہ تعالی اس کو سائٹ پر ڈالا جائےگا۔
★=====★
♥کآپ کی دعاؤں کا طالب♥
⊙ جزاكم الله کل خير واحسن جزاء فی الدنيا والاخرة⊙