♥معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم♥

♥ بِسّمِ اللَّہِ الرّ حمٰنِ الرَّحیم ♥

⊙ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ⊙

سُبحٰنَ الَّذِی اَسرٰی بِعَبدِه لَيلًا مِّنَ المَسجِدِ الحَرَامِ اِلَی المَسجِدِ الاَقصَی الَّذِی بَارَکنَاحَولَه لِنُرِيَه مِن اٰيٰاتِنَا اِنَّه هُوَالسَّمِيعُ البَصِيرُ.

(بنی اسرائیل : 1)

’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصے میں اپنے (محبوب اور مقرب) بندے کو مسجد حرام سے (اس) مسجد اقصیٰ تک لے گئی جس کے گردونواح کو ہم نے بابرکت بنادیا ہے تاکہ ہم اس (بندہ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے‘‘۔

♥سفرِ معراج کا بیان کا آغاز لفظ سُبحٰن سے کیوں کیا؟

اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں سفر معراج کو لفظ سُبحٰن کے آغاز کے ساتھ بیان کیا کہ ’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے محبوب اور مقرب بندے کو سفر معراج پر لے گئی‘‘ عربی زبان اور محاورہ عرب میں جب کوئی بات سُبحٰنَ سے شروع کی جائے تو اس سے مراد ایک طرح کی قسم لیتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزہ معراج کا ذکر اپنی بزرگی، برتری اور شان صمدیت کی قسم کھا کر کیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کو ’’سبحن الذی‘‘ سے سفر معراج کو بیان کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ اللہ کے کلام میں کسی مسلمان کو تو شک و شبہ ہو نہیں سکتا اور کفار ومنکرین پر اللہ کے قسم کھانے یا نہ کھانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
پہلی حکمت۔۔۔ 

♥معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالم بیداری کا واقعہ:

اس کی وجہ یہ تھی کہ واقعہ معراج ایک عظیم اور نادر الوجود معجزہ ہے۔ اللہ نے اس واقعہ کو اپنی بزرگی کے اظہار کے ساتھ شروع کرکے معترضین کے اس اعتراض کو رد کیا ہے کہ واقعہ معراج حالتِ خواب میں رونما ہوا نہ کہ حالتِ بیداری میں۔ اگر معراج، حالت خواب میں ہوتا تو رب کریم کبھی اس کا ذکر قسم کھا کر نہ کرتا، قسم کھا کر واقعہ معراج کو بیان کرنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ یہ معراج نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حالت خواب میں نہیں بلکہ عالم بیداری میں ہوئی تھی۔ اگر اس واقعہ کا تعلق خواب سے ہوتا تو عالم بالا، عرش الہٰی، جنت و دوزخ، فرشتوں، جبرائیل اور آسمانوں کی زیارتیں، انبیاء اور اولیاء کو اکثر عالم خواب میں ہوتی رہتی ہیں اس صورت میں معراج اتنا عجیب اور عظیم واقعہ نہ ہوتا کہ جس کو قسم کھا کر بیان کرنے کی ضرورت ہو۔ پس ’’سبحن الذی‘‘ سے اس سفر معراج کے بیان کا شروع ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ معراج عالم خواب کا واقعہ نہیں بلکہ عالم بیداری کا واقعہ ہے۔
دوسری حکمت۔۔۔

♥معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اظہارِ قدرت:

معراج ایک معجزہ ہے اور معجزہ اس واقعہ کو کہتے ہیں جس کو سمجھنے اور ماننے سے عقل عاجز آجائے کیونکہ وہ خلاف عادت، خلاف طریقہ، خلاف ضابطہ ہوتا ہے۔ عقل جن امور کو سمجھنے کی عادی ہوتی ہے معجزہ اس عادت کے خلاف واقع ہوتا ہے، عقل اس کو نہ سمجھ سکتی ہے اور نہ ہی مان سکتی ہے۔ جس کو عقل آسانی سے مان لے اور سمجھ لے وہ معجزہ ہو ہی نہیں سکتا۔ پس جس نے بھی امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں معراج کو معجزہ بھی مان لیا اور اس کو خواب کے ساتھ متعلق بھی کیا تو اس کی اس بات کی اندر کوئی تطبیق نہیں اس لئے کہ ان دونوں باتوں کا آپس میں کوئی جوڑ نہیں۔ معراج کو معجزہ مان کر اس کو خو اب کہنا یا منامی معراج کہنا۔۔۔ ان دونوں میں ایک واضح تضاد ہے۔ اگر خواب ہے تو معجزہ نہیں اور اگر معجزہ ہے تو خواب نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سبحن الذی سے بیان کا آغاز کرکے واضح کر دیا کہ واقعہ معراج اظہار عادت نہیں بلکہ اظہار قدرت ہے اور یہ عقل میں عادتاً سمجھ آنے و الا نہیں بلکہ عقل کو عاجز کر دینے والا ہے۔ پس لفظ ’’سبحن‘‘ اس کے معجزہ ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
تیسری حکمت۔۔۔ 

♥معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جھٹلانا، عظمت خدا کا انکار:

تیسری حکمت لفظ سبحٰن سے بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سفر معراج کو بیان کیا تو کفار نے اس کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور کہنے لگے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک اور پھر وہاں سے آسمان اور فوق السموات جا سکے۔ یہ سارا ایک رات میں ممکن نہیں ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ اے اعتراض کرنے والو میرے نبی نے تو یہ کہا ہی نہیں کہ ’’میں گیا‘‘ بلکہ یہ تو میں کہہ رہا ہوں کہ سبحٰن الذی اسریٰ ’’میں لے گیا‘‘ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو دعویٰ کیا ہی نہیں، دعویٰ تو اللہ کر رہا ہے کہ میں لے گیا۔ پس معراج مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عالم بیداری میں ہونے کا انکار کرنے والے اصل میں دعویٰ مصطفیٰ نہیں بلکہ دعویٰ خدا کو جھٹلا رہے ہیں۔ پس جو مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیداری میں معراج کا انکار کر رہا ہے وہ انکار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں بلکہ انکار خدا کر رہا ہے۔ یہ اللہ کی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ہے کہ اس نے نبی کو دشمنوں کے طعنے سے بچانے کے لئے ایک طرف کر دیا اور خود اپنی ذات کو آگے کر دیا کہ ’’میں لے گیا‘‘ اگر کسی نے اعتراض کرنا ہے تو میری طاقت اور قدرت کا انکار کرے۔ پس عالم بیداری میں معراج کا انکار کرنا عظمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار نہیں بلکہ قدرت الہٰیہ کا انکار ہے۔ اس لئے اللہ نے اسے لفظ سبحٰن سے شروع کیا۔

♥ایمان کی آزمائش:

دو واقعات بڑی عجیب آزمائش بنے۔ ایک میں رب نے سب کو بچا لیا اور ایک آزمائش میں قسمت والے بچ گئے، محروم پھنس گئے۔

♥تحویلِ قبلہ اور آزمائش ایمان:

ایک آزمائش ہجرت مدینہ کے 18ماہ بعد ہوئی جب دوران نماز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب اطہر میں قبلہ کی تبدیلی کی خواہش آئی اور آپ نے حالت نماز میں چہرہ انور بار بار اوپر اٹھایا۔ اللہ رب العزت کی طرف سے جواب آیا :

قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ.

(البقرہ : 144)

’’(اے حبیب) ہم بار بار آپ کے رخ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں سو ہم ضرور بالضرور آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں پس آپ اپنا رخ ابھی مسجد حرام کی طرف پھیر لیجئے‘‘۔

جس طرف آپ راضی ہیں ہم اسی کو قبلہ بنا دیتے ہیں کیونکہ میری ذات تو کسی خاص سمت کی محتاج ہے ہی نہیں ہم تو آپ کی خواہش اور مرضی کو دیکھتے ہیں جس طرف آپ چاہتے ہیں وہی قبلہ بنا دیتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حالت نماز میں امر الہٰی پا کر خاموشی سے رخ بدل لیا اور رخ کی تبدیلی دائیں یا بائیں طرف نہ ہوئی بلکہ مخالف سمت ہوئی جس سے صورت حال یہ ہوئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رخ اور صحابہ کا رخ آمنے سامنے ہوگیا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صفوں کو چیرتے ہوئے آگے چلے گئے اب حضور کا چہرہ کعبہ کی سمت تھا اور مقتدیوں کا چہرہ بیت المقدس کی طرف تھا اب یہ لمحہ آزمائش کا لمحہ تھا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو بتایا ہی نہیں کہ رخ کیوں پھیرا ہے۔ اللہ نے فرمایا :

وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ.

(البقرہ : 143)

’’اور آپ پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے صرف اسی لئے مقرر کیا تھا کہ ہم (پرکھ کر) ظاہر کر دیں کہ کون (ہمارے) رسول کی پیروی کرتا ہے (ا ور) کون اپنے الٹے پاؤں پھر جاتا ہے‘‘۔

یہ لمحہ آزمائش کا لمحہ تھا کہ ایک طرف قبلہ خدا ہے اور دوسری طرف رخ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور صحابہ کو وحی کے آنے کا معلوم نہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو حکم بھی نہیں دیا کہ وحی آئی ہے لہذا اپنے چہرے پھیر لو پس یہ آزمائش تھی تاکہ جانا جائے کہ ان کے ایمان کی بنیاد عقل و فہم ہے یا رخ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ صحابہ نے ساری سوچیں چھوڑ دیں اور رخ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب ہی اپنے چہروں کو پھیرلیا۔ اللہ نے ارشاد فرمایا۔

وَمَا کَانَ اللّٰه لِيُضِيعَ اِيمَانَکُم.

’’اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ تمہارا ایمان (یونہی) ضائع کر دے‘‘۔

گویا اگر قبلہ کو تھامے رکھتے تو ایمان ضائع ہوجاتا قبلہ کو چھوڑ کر ایمان کو بچا لیا۔ آج لوگ ایمان کے لئے کعبہ کی طرف دوڑتے ہیں اور اللہ نے قرآن میں ایمان کو بچانے کے لئے کعبہ کے کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا ہے۔ قبلے تو بدلتے رہتے ہیں جدھر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رخ ہے وہی قبلہ ہے۔ پس ایمان کو بچانا ہے تو مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف جانا ہوگا۔

♥واقعہ معراج اور آزمائش ایمان:

اس طرح دوسری آزمائش اللہ نے واقعہ معراج کو بنایا۔ کچے ایمان والے لوگ واقعہ معراج کو سننے کے بعد ایمان چھوڑ گئے۔ ایک اور قرآنی حوالہ جسے بہت کم معجزہ معراج کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا اسے بیان کر رہا ہوں کہ جملہ کتب حدیث اور تفاسیر میں مذکور ہے کہ وہ افراد جو نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے واقعہ معراج کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے سن کر مرتد ہوگئے اور کہنے لگے یہ بات ماننے کے قابل نہیں۔ قرآن حکیم نے اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا فرمایا :

وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِّلنَّاسِ.

(بنی اسرائیل : 60)

’’اور ہم نے تو (شبِ معراج کے) اس نظارہ کو جو ہم نے آپ کو دکھایا لوگوں کے لئے صرف ایک آزمائش بنایا ہے (ایمان والے مان گئے اور ظاہر بین الجھ گئے)‘‘۔

یعنی اے حبیب ہم نے جو شبِ معراج آپ کو مشاہدہ کروایا یہ لوگوں کے ایمان کے لئے آزمائش بن گیا کہ کون آنکھیں بند کرکے واقعہ معراج پر ایمان لاتا ہے اور کون معجزہ پر ایمان لاتا ہے اور کون اپنی عقل کی بات مانتے ہوئے اس معجزہ کا انکار کر دیتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اگر واقعہ معراج بطور خواب ذکر کیا ہوتا تو کیا کوئی مرتد ہوتا، نہیں کیونکہ خواب کو نہ ماننے میں کوئی امر مانع نہ تھا۔ پس ان لوگوں کے مرتد ہونے کی وجہ یہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ میں نے سارا سفر رات کو عالم بیداری میں کیا ہے۔

اس موقع پر دو گروہ ہوگئے ایک وہ جنہوں نے اس واقعہ کو عقل پر پرکھا اور دوسرے وہ جنہوں نے عشق پر پرکھا۔ جنہوں نے سمجھ پر پرکھا، وہ مرتد ہوگئے چونکہ بات خواب کی ہو نہیں رہی تھی۔

سوال یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سفر معراج عالم بیداری میں کیا یا عالم خواب میں اس سلسلے میں صحیح معلومات کس کو تھیں؟ براہ راست سننے والوں کو صحیح خبر تھی یا آج کل کے نام نہاد علماء کو جو معراج کو عالم خواب کا واقعہ قرار دیتے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ صحیح خبر انہی کو تھی جو براہ راست سن رہے تھے اور عقل پر پرکھ کر، سن کر مرتد ہوگئے کیونکہ اگر خواب ہوتا تو مان لیتے، مرتد اس لئے ہوئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیداری کا ذکر کیا تھا۔ پس عقل والے مارے گئے اور عشق والے بچ گئے۔

♥معجزہ معراج اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بن سنے تصدیق:

حدیث مبارکہ ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس گروہ کفار آیا اور کہنے لگے: ’’کہ آپ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعویٰ کر دیا ہے کہ میں راتوں رات مسجد حرام سے اقصیٰ اور پھر آسمانوں تک گیا اور معراج کرکے واپس آگیا‘‘۔ امام قرطبی بیان کرتے ہیں کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بولے انتم تکذبون علیہ۔ ’’تم ان پر جھوٹ بولتے ہو انہوں نے یہ نہیں کہا ہوگا‘‘۔ معلوم ہوا کہ اگر خواب کی بات ہوتی تو کبھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ انہیں یہ نہ کہتے کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔ عالم بیداری کا بیان ہو رہا تھا اس لئے فرمایا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔ کفار بولے: یاابابکرھا ھو جالس فی المسجد ویحدث اصحابہ۔ ’’جاؤ سن لو وہ مسجد میں بیٹھے ابھی بھی اپنے اصحاب کو بتا رہے ہیں‘‘۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کہا ھو یحدث اصحابہ الآن ’’وہ اپنے ساتھیوں کو اس وقت بھی بتا رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ نعم ھو یحدث ’’ہاں وہ بیان کر رہے ہیں‘‘۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا واللہ لو کان ھذا صَدَقَ ’’خدا کی قسم اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کہا ہے تو سچ کہا ہے‘‘۔ اس پر کفار بولے یا ابابکر ھل انت تصدقہ بغیر ان تسمع عنہ ’’اے ابابکر کیا آپ ان سے سنے بغیر ان کی بات کی تصدیق کر رہے ہیں‘‘ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : ’’خدا کی قسم یہ تو معراج کی بات ہے میں نے تو اس سے بھی عجیب تر بات ان سے سن کر تصدیق کر دی تھی‘‘۔ انہوں نے کہا وہ کونسی عجیب بات ہے؟ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ تو مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لامکان تک جانا اور واپس آنا ہے اس کی تصدیق پر آپ کو تعجب ہو رہا ہے ہم نے تو بغیر دیکھے، مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سن کر خدا کو مان لیا ہے، انہوں نے کہا کہ خدا ہے ہم نے ان کی بات پر لبیک کہا اور کہا ہاں ہے، انہوں نے خدا کے ایک ہونے کا کہا ہم نے اسے بھی مان لیا۔ ہم نے تو خدا کا ہونا مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کہنے پر مان لیا ہے، یہ باتیں تو چھوٹی باتیں ہیں۔

اس مکالمہ کے بعد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واقعہ معراج بیان کر رہے تھے، عرض کیا یا رسول اللہ مجھے بھی یہ واقعہ سنائیں پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بتانے لگے اور ہر جملہ پر صدیق اکبر کہتے صَدَقتَ یَارَسُولَ اللّٰہ ’’آپ نے سچ فرمایا ہے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ جب بیان مکمل ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یا ابابکر انت صدیق ’’اے ابوبکر آپ صدیق ہیں‘‘ پس حضرت ابوبکر صدیق کو صدیق ماننے والو یہ بھی جان لو کہ وہ صدیق بنے کیسے؟ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عالم بیداری میں معراج کی بن سُنے تصدیق کرنے پر صدیق ہوگئے۔

♥واقعہ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔۔۔ اندازِ بیاں میں تبدیلی کی حکمت:

مذکورہ آیت کریمہ سبحن الذی اسریٰ انداز خطاب تین بار بدلا ہے۔ ابتداء صیغہ غائب سے کیا ارشاد فرمایا سبحٰن الذی اسریٰ بعبدہ پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو سیر پر لے گئی۔ اس کے بعد خطاب کا انداز یکایک بدل ڈالا، ارشاد فرمایا۔ اَلَّذِی بٰارَکنَا حَولَہ لِنُرِیَہ مِن اٰیٰاتِنَا۔وہ مسجد اقصیٰ جس کے اردگرد کو ’’ہم‘‘ نے مبارک کر دیا ہے پہلے ’’وہ‘‘ تھا اب ’’ہم‘‘ ہوگئے۔ بات ’’وہ‘‘ سے شروع کی اور پھر صیغہ میں تبدیل کرکے بارکنا فرمایا ’’ہم نے برکت دی‘‘ اس کے بعد پھر خطاب بدل ڈالا اور ارشاد فرمایا انہ ھوالسمیع البصیر بے شک وہ، وہی سننے والا دیکھنے والا ہے۔ ابتداء ’’وہ‘‘ سے کی، درمیان میں ’’ہم‘‘ ہوا پھر آخر پر ’’وہی‘‘ ہوگیا۔ پاک ہے وہ ذات۔۔۔ ہم نے برکت دی۔۔۔ وہ اور وہی سننے دیکھنے والا ہے۔۔۔ آیت کریمہ میں تین دفعہ صیغہ بدلنے کی دو حکمتیں ہیں۔

♥پہلی حکمت:

معراج کا سفر تین مرحلوں میں ہے۔ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کا عالم ناسوت کا سفر اس کو ’’وہ‘‘ کہہ کر بیان کیا۔۔۔ آسمانوں اور سدرۃ المنتہٰی تک عالم لاہوت اور جبروت کے سفر کو ’’ہم‘‘ کہہ کر بیان کیا۔۔۔ اور سدرۃ المنتہٰی کے بعد کا سفر جب براق بھی رہ گیا، رفرف آیا وہ بھی رہ گیا اورپھر بقعہ نور آیا، بالآخر وہ بھی رہ گیا۔۔۔ اور پھر وہ مقام آیا کہ جب کچھ بھی نہ تھا صرف وہ (اللہ) تھا اور یہ (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھا۔ صرف خدا تھا اور مصطفیٰ تھا اور کچھ نہ تھا، وہاں تجرید و تفریق کی طرف آگئے، وہاں کو ئی اور سننے والا نہ تھا، وہ بولتا تھا اور یہ سنتا تھا۔۔ وہاں کوئی اور دیکھنے والا بھی نہ تھا، وہ دیکھتا تھا تو یہ دکھائی دیتا تھا اور یہ دیکھتا تھا تو وہ دکھائی دیتا تھا۔۔۔ جلوہ خدا تھا اور نگاہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھی، اور اسی طرح جلوہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا اور نگاہ خدا تھی۔ اس سفر کو انہ ھو السمیع البصیر کے ذریعے بیان کیا کہ وہ اور صرف وہی سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ ایک اشارہ اپنی طرف کر دیا اور ایک اشارہ محبوب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کر دیا۔

♥حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کو کیسے دیکھا؟

معراج پر ہونے والے ایک اور اعتراض کا جواب اس آیت کریمہ میں خود رب کائنات نے دے دیا۔ جنہوں نے کہا کہ معراج پر محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گئے کیسے؟ انہیں جواب سبحن الذی کہہ کر دے دیا کہ انہیں تو میں لے کر گیا ہوں۔ جنہوں نے کہا کہ مصطفیٰ نے دیکھا کیسے؟ کیونکہ خدا تو دکھائی نہیں دیتا۔ اسے دیکھا نہیں جاسکتا۔ جنہوں نے مقام ’’قاب قوسین او ادنیٰ‘‘ پر اعتراض کیا، تو اللہ نے انہیں جواب دیا کہ اگر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیکھتے اپنی آنکھ سے، تو پھر اعتراض درست تھا۔۔۔ اور اگر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سنتے اپنے کان سے تو اعتراض درست تھا کہ کیسے سنا۔۔۔ مگر سنا مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مگر کان میرا تھا۔۔۔ جب مصطفیٰ مجھے دیکھ رہے تھے اس وقت جلوہ بھی میرا تھا اور بصارت بھی میری تھی۔۔۔ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے، مجھ سے دیکھا۔۔۔ اور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے، مجھ سے سنا۔۔۔ مصطفیٰ نے مجھے، میری آنکھ سے دیکھا اور مجھے میرے کان سے سنا۔۔۔ یہ اشارہ انہ ھوالسمیع البصیر میں ہے۔ ذات مصطفیٰ کی تھی مگر سمع و بصر خدا کے لباس پہنا دیئے تھے۔ گویا اس آیت میں اللہ نے ابتداء کے اعتراض کہ گئے کیسے؟ کو بھی رد کیا اور انتہا کے اعتراض کہ دیکھا کیسے؟ کو بھی رد کیا۔

♥دوسری حکمت:

آیت مبارکہ میں تین صیغوں کے بدلنے کی ایک حکمت خاص بھی ہے۔ جب فرمایا سبحن الذی کہ پاک ہے وہ ذات صیغہ غائب سے بات کی، تو یہ مرحلہ تفرقہ تھا۔ یہ تصوف اور معرفت کی خاص اصطلاح ہے، فرق، ہجر،جدائی کے مفہوم کو سموئے ہوئے تفرقہ عشق ہے، تفرقہ تعلق ہے۔ پھر فرمایا بارکنا حولہ ’’ہم نے برکت دی‘‘ تفرقہ مٹا دیا اور یہ ’’مقام جمع‘‘ کا ذکر فرمایا اور ان دونوں مقاموں تک اولیاء بھی پہنچے اور انبیاء بھی پہنچے پھر فرمایا انہ ھوالسمیع البصیر جب اس مقام تفریق و تجرید پر پہنچے تو یہ ’’مقام جمع الجمع‘‘ ہے اور یہ مقام صرف مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نصیب ہوا اور جب اس مقام پر پہنچے تو لے جانے والے جبرائیل بھی رہ گئے اور سواری بھی رہ گئی۔

♥مقام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشریت و نورانیت سے ماورآء:

سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب سواری نے ایک مقام پر جاکر رہ ہی جانا تھا تو شروع سے سواری بھیجنے کی ضرورت ہی کیا تھی جیسے آگے لے جا رہا ہے ویسے ہی شروع سے لے جاتا۔ حقیقت میں مخلوق کو یہ دکھانا تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ لوگ مقام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں جھگڑیں گے۔۔۔ کوئی انہیں مقام بشریت تک محدود کرتا ہوا نظر آئے گا اور کوئی انہیں صرف نور کہے گا۔ مصطفیٰ کے مقام کو فقط بشریت تک محدود کرنے والو سنو! کہ بشریت مسجد اقصیٰ تک رہ گئی۔ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگے چلے گئے، معلوم ہوا کہ بشریت، مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانوں میں سے ایک شان ہے، مقام نہیں ہے۔ اگر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام صرف بشریت ہوتا تو مسجد اقصیٰ سے آگے نہ جاسکتے پس بشریت، مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام نہیں بلکہ بشریت کا مقام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں ہے۔

مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام کو فقط نورانیت میں بند رکھنے والو! دیکھو جبرائیل اور براق جو نور ہیں وہ سدرۃ المنتہٰی پر رہ گئے اور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے بھی آگے چلے گئے اگر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام فقط نورانیت ہوتا تو سدرۃ المنتہٰی سے آگے نہ جاسکتے۔ پس بشریت بھی، مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک شان اور نورانیت بھی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک شان ہیں۔ بشریت اقصیٰ میں رہ گئی، نورانیت سدرۃ المنتہٰی پر رہ گئی، مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگے چلے گئے۔ معلوم ہوا یہ شانیں تھیں اور مقام اس سے اوپر ہے۔ بشریت بھی حق ہے اس کا انکار کرنا کفر ہے اور حق اتنی ہے کہ اقصیٰ میں رہ گئی، نورانیت بھی حق ہے اور بشریت سے بہت آگے ہے، اس کا انکار کرنا گمراہی ہے، بدبختی ہے اور حق اتنی ہے کہ سدرۃ المنتہٰی پر کھڑی ہے۔ مقام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشریت سے بھی بلند ہے اور نورانیت سے بھی بلند ہے۔ بشر بھی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیض لیتا ہے، نور بھی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیض لیتا ہے۔۔۔ آگے رفرف آیا مگر ایک مقام پر جب اللہ کی تجلیات بے حد ہوگئیں تو رفرف بھی رہ گیا۔۔۔ پھر بقعہ نور آیا، ایک مقام پر بقعہ نور بھی رہ گیا۔۔۔ اور پھر ایک مقام ایسا آیا کہ اور کوئی وہاں نہ جاسکا، بس ادھر خدا تھا ادھر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔۔۔ اللہ نے فرمایا۔

ثم دنی فتدلی مراد جبرائیل کا قریب ہونا نہیں بلکہ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت انس سے روایت ہے کہ دنی الجبار رب العزت فتدلی ’’اللہ قریب ہوا‘‘ پس یہ غلط خیال نکال دو کہ جبرائیل قریب ہوئے، جبرائیل تو وہ ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسوں کے جھولے جھولتے ہیں۔ اس کی ایک اور تفسیر امام جعفر صادق نے کی، فرمایا ثم دنی ای دنی محمد فتدلی ’’کہ محمد اللہ کے قریب ہوئے‘‘۔ دونوں تفاسیر حق ہیں، وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہوا اور یہ خدا کے قریب ہوئے۔

پھر ایک مقام آیا کہ آواز آئی اے حبیب اب آپ رک جائیں حرم کعبہ سے یہاں تک آپ آئے ہیں اب آپ رک جائیں اب آگے بڑھ کر میں آتا ہوں۔ امام عبدالوہاب شعرانی نے الیواقیت الجواہر میں اور دیگر عرفاء و اولیاء نے بیان کیا ہے کہ اللہ نے آواز دی قف یامحمد ان ربک یصلی ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رک جائیں آپ کا رب آپ پر صلوٰۃ پڑھ رہا ہے‘‘۔

معراج کی رات اللہ نے اپنے حبیب کا استقبال درود و سلام سے کیا۔ صلی کا ایک معنی قریب ہونا ہے، معنی ہوگا کہ اے حبیب رک جائیے اب آپ کا رب خود آپ کے قریب آتا ہے۔ اس استقبال کے بعد قربتیں شروع ہوگئیں۔

♥حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسماء، افعال، صفات اور ذات پر الوہی رنگ کا غلبہ:

ثم دنی پہلا قرب ہوا اور یہ قرب اسماء تھا۔۔۔ فتدلی۔۔۔ یہ قرب افعال تھا۔۔۔ فکان قاب قوسین۔۔ یہ قرب صفات تھا۔۔۔ او ادنی یہ قرب ذات تھا۔ چار قرب ہوئے۔

دنی۔۔۔ اسماء مصطفیٰ، اسماء خدا کے قریب ہوگئیں اور ان کے درمیان اتنا قرب ہوا کہ خدا کے اسماء کا رنگ، مصطفیٰ کے اسماء کے رنگ پر غالب آگیا۔ اب اسماء مصطفیٰ کے تھے مگر رنگ خدا کے تھے، وہ رؤف تھا، یہ بھی رؤف ہوگئے۔۔۔ وہ عزیز تھا، یہ بھی عزیز ہوگئے۔۔۔ وہ رحیم تھا، یہ بھی رحیم ہوگئے۔۔۔ وہ شہید تھا، یہ بھی شہید ہوگئے۔۔۔ وہ سمیع تھا، یہ بھی سمیع ہوگئے۔۔۔ وہ بصیر تھا، یہ بھی بصیر ہوگئے۔۔۔ وہ حلیم تھا، یہ بھی حلیم ہوگئے۔۔۔ وہ علیم تھا، یہ بھی علیم ہوگئے۔۔۔ اس کے اسماء، مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسماء پر غالب آگئے۔

فتدلی (پھر اور قریب ہوا) اللہ کے افعال، مصطفیٰ کے افعال پر غالب آگئے۔۔۔ اللہ کے افعال کا رنگ، مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے افعال پر چڑھ گیا۔ ذات مصطفیٰ کی رہی مگر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فعل، خدا کے افعال کے رنگ میں رنگے گئے۔۔۔ جب اسماء پر اسماء کا رنگ اور افعال پر افعال کا رنگ غالب آگیا تو ارشاد فرمایا۔

فکان قاب قوسین (درمیانی فاصلہ دو کمانوں کا رہ گیا) مصطفیٰ کی صفات پر اللہ کی صفات کا رنگ غالب آگیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی ذات کی صفتوں کا رنگ اترتا گیا اور اللہ کی صفتوں کا رنگ چڑھتا گیا۔ کوئی اعتراض کرے کہ یہ رنگ کیسے چڑھا؟ اور کیسے چڑھ سکتا ہے، اللہ نے خود فرمایا :

صبغۃ اللہ ومن احسن من اللہ صبغۃ۔ ’’اللہ کا رنگ اور اللہ کے رنگ سے بہتر کسی کا رنگ ہے‘‘۔ اسی طرح اللہ نے فرمایا تخلقوا باخلاق اللہ (اللہ کے اخلاق کے رنگ چڑھا لو) پس اللہ کے اخلاق کے رنگ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خُلق پر چڑھ گئے گویا اس مقام پر اسماء مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، افعال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صفات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ کے اسماء، افعال اور صفات کا رنگ چڑھ چکا تھا۔ جب سارے رنگ چڑھ گئے تو فرمایا اب حبیب صرف تیری ذات رہ گئی۔ ارشاد فرمایا۔

او ادنیٰ خدا نے اس مقام پر اپنی ذات کا رنگ بھی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر چڑھادیا۔ اللہ کے اسماء کا رنگ، اسماء مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر چڑھنا یہ اسماء مصطفیٰ کی معراج تھی۔۔۔ اللہ کے افعال کا رنگ، افعال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر چڑھنا یہ افعال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معراج تھی۔ اللہ کی صفات کا رنگ، صفات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر چڑھنا یہ صفات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معراج تھی۔۔۔ اور بالآخر ذات خدا کا رنگ ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر چڑھنا ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معراج تھا۔

جب معراج کامل ہوگئی، تو رنگ اتنا چڑھ چکا تھا کہ وہ اس رنگ کا تصور احاطہ ذہنِ انسانی میں نہیں آسکتا۔ اس کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں کہ: بخاری شریف کی حدیث ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور وادی قُبا میں آئے تو اس مقام پر لوگ ملنے کے لئے آئے تو کئی لوگ تذبذب کا شکار ہوگئے کہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کون ہیں اور غلام ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کون ہیں؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سمجھ گئے کہ لوگوں کو آقا اور غلام کا فرق سمجھ میں نہیں آ رہا آپ چادر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر انور پر تان کر کھڑے ہوگئے تاکہ لوگ سمجھ لیں کہ جو چادر تان کر کھڑا ہے وہ غلام ہے اور جو تشریف فرما ہیں وہ آقا ہیں۔ اس حدیث پر بعض علماء نے یہ سمجھا کہ چادر اس لئے تانی تاکہ دھوپ سے بچاؤ ہو۔

یہ تاویل غلط ہے اس لئے کہ یہ امر مسلّم ہے کہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دھوپ آتی ہی نہ تھی بلکہ بادل کا ٹکڑا اوپر سایہ کئے رکھتا تھا تو کس دھوپ سے بچانے کے لئے چادر تانی تھی۔ معلوم ہوا کہ مسئلہ دھوپ والا نہ تھا کسی اور کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور سبب بھی نہیں ہے مگر اہل ادب کے پاس اس کا ایک سبب ہے کہ لوگوں کے اس مغالطے کو کہ آقا اور غلام کون ہیں؟ دور کرنے کے لئے چادر تانی۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ مغالطہ لگا کیوں؟ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی کیا شان کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسے لگیں؟ کوئی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا نہیں اور نہ کوئی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا لگ سکتا ہے۔ ہوا یہ تھا کہ تین راتیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ غار ثور میں تنہا گزار آئے تھے، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی جھولی تھی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر انور تھا اور تین راتیں مسلسل صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی نگاہ چہرہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رہی اور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ چہرہ ابوبکر پر رہی اور اس توجہ اجتہادی سے، براہ راست توجہ سے چہرہ صدیق اکبر پر انوار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پرتو آگیا تھا، انوار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ ان پر چڑھ گیا تھا۔ ان تین راتوں کے مسلسل تکنے سے ایسا رنگ چڑھا کہ لوگوں کو مغالطہ ہوگیا۔ ان تین راتوں نے اتنا رنگ چڑھا دیا کہ یہ صورتحال پیدا ہوگئی اور خدا جانے کتنا عرصہ خدا قاب قوسین او ادنی کے مقام پر چہرہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکتا رہا اور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چہرہ خدا کو تکتے رہے۔

انہ ھو السمیع البصیر میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہی دیکھ رہا تھا اور وہی سن رہا تھا۔ ماذاغ البصر وماطغی۔۔۔ ماکذب الفواد مارٰی دل بھی دیکھتا رہا اور آنکھیں بھی دیکھتی رہیں اور آنکھوں نے ایسا دیکھا کہ نہ حد سے گزریں اور نہ جھپکیں۔۔۔ اس اثناء میں کتنا رنگ چڑھ گیا ہوگا۔۔۔ اس بارے صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے۔

♥ تم ذات خدا سے نہ جدا ہو نہ خدا ہو اللہ ہی کو معلوم ہے کیا جانئے کیا ہو۔♥

﴿ وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ ﴾
"قَسم ہے روشن ستارے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جب وہ (چشمِ زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اترے،"
(سورة النجم:1)


﴿ وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَىٰ ﴾
"اور وہ (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شبِ معراج عالمِ مکاں کے) سب سے اونچے کنارے پر تھے (یعنی عالَمِ خلق کی انتہاء پر تھے)،"
(سورة النجم:7)


﴿ أَفَتُمَارُونَهُ عَلَىٰ مَا يَرَىٰ ﴾
"کیا تم ان سے اِس پر جھگڑتے ہو کہ جو انہوں نے دیکھا،"
(سورة النجم:12)

♥اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى سَيِّدِنَا وَمَوْلاَنَا مُحَمَّدٍ النَبِيِّ الْاُمِّيِ وَعَلَى آلهِ وَصَحْبِه وَباَرِكْ وَسَلِّمْ♥

No comments:

Post a Comment

سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔
لوگوں سے اپنے لۓ کثرت سے احپھی دعائیں کروایا کرو۔ بندہ نہیں جانتا کہ کس کی دعا اس کے حق میں قبول کی جاۓ۔ یا کس کی دعا کی وجہ سے اس پر رحم کیا جاۓ۔
کنزالعمال، (3188)
●موطا امام مالک●

نوٹ: اگر آپ کے پاس اس سلسلہ کا مستند مواد یا کتاب pdf فائل کی شکل میں موجود ہوں تو ہم کوبھیج کرقرآن  کریم کی آیت: 

(تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى )
(مومنوں کی صفات میں سے ایک صفت یہ ہے کہ وہ) بھلائی  اور پرہیزگاری  کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں کا مصداق بنیں،اگر انتظامیہ مناسب خیال کرے تو ان شاءاللہ تعالی اس کو سائٹ پر ڈالا جائےگا۔ 

★=====★

♥کآپ کی دعاؤں کا طالب♥


⊙ جزاكم الله کل خير واحسن جزاء فی الدنيا والاخرة⊙